Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطرفی مسئلے کا حل نہیں

ابراہیم باداود۔ المدینہ
ٹریفک حادثات سے جو جسمانی اور مالیاتی نقصانات ہوتے ہیں ان سے انکار ممکن نہیں۔ بے قصور جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ کئی لوگ زخمی ہوجاتے ہیں۔ قیمتی اشیاءتباہ ہوتی ہیں۔ یہ حقائق کسی سے پوشیدہ نہیں۔ 2016ءکے اعدادوشمار سے پتہ چلا ہے کہ مملکت میں 533000سے زیادہ ٹریفک حادثات ہوئے۔ ان میں 9ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں۔ زخمیوں کی تعداد 38ہزار سے تجاوز کرگئی۔ فی گھنٹہ 4، 5افراد زخمی ہوتے رہے۔ زخمیوں سے سعودی اسپتالوں کے 30فیصد سے زیادہ بستر بھر گئے۔ یہ عالمی تناسب سے زیادہ ہے جو 15فیصد ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ ٹریفک حادثات میں اضافے کا اہم سبب ٹریفک قوانین و ضوابط کی پابندی نہ کرنا ہے۔ حد سے زیادہ رفتار سے ڈرائیونگ ، موبائل کا استعمال ، بعض سڑکوں کا تعمیراتی اصولوں پر پورا نہ اترنا، متبادل شاہراہوں کا فقدان اسکے بڑے سبب ہیں۔
حال ہی میں جازان ریجن کی صبیا کمشنری کی القدمی تحصیل میں ہیبتناک ٹریفک حادثہ ہوا۔ اس میں مقامی شہری کے 6بیٹے اور بیوی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 
ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹوں سے پتہ چلا ہے کہ ٹرکوں کے چلنے سے سڑک تباہ ہوگئی ہے۔ یہ ٹرک نہ صرف یہ کہ ماحولیاتی آلودگی پیدا کرتے ہیں بلکہ مذکورہ علاقے کے قریوں کے باشندوں کی زندگی کو بھی خطرات لاحق کئے ہوئے ہیں۔ قریوں کے باشندے بار بار حکومت سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ ٹرکوں کا راستہ تبدیل کیا جائے۔ انہیں راستے پر چھائی ہوئی تاریکی اور اصلاح و مرمت کا دھیان نہ رکھنے سے پیدا ہونے والے مسائل سے نجات دلائی جائے مگر انکی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ حادثہ ہوتے ہی بعض اداروں نے ذمہ داری سے ہاتھ جھاڑ لئے۔ کئی نے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرادیا۔ بعض نے تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا اعلان کردیا۔ ایک ادارے نے ٹیکنیکل رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دیدی۔ ایک اور ادارے نے وزارت کے عہدیدار کو منصب سے سبکدوش کردیا۔ مختلف رپورٹوںنے دعویٰ کیا کہ حادثے کا ذمہ دار وہ ٹھیکیدار ہے جو مقررہ معیار کے مطابق اصلاح و مرمت سے گریز کررہا ہے۔ حقیقت کچھ بھی ہو ناقابل انکار سچ یہ ہے کہ جو لوگ حادثے میں چلے گئے اب وہ واپس نہیں آسکتے۔ البتہ اصلاح و مرمت میں کوتاہی اس قسم کے مزید حادثات کو جنم دے گی۔ ذمہ داران کا فرض ہے کہ وہ جلد از جلد اصلاح حال کریں اورکسی نئے حادثے کا انتظا ر نہ کریں۔ یہ نہ سمجھیں کہ مدیر کی برطرفی سے مسئلہ حل ہوجائیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: