Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر کمیٹی کا رول آخر ہے کیا؟

***صلاح الدین حیدر***
ہندوستان کے قبضے میں 1947ء سے رہنے والا علاقہ جسے ہم کشمیر کہتے ہیں اور جہاں دراصل خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، اسکے لیے پاکستان نے کیا کیا؟ سوال بہت ضروری ہے اور جواب بھی ملنا چاہیے، لیکن شاید میںنے غلط کہا کہ جواب کون دے گا۔
آزاد کشمیر کا علاقہ جس کا دارالحکومت مظفر آباد ہے،میں ایک نئی اسمبلی ، ایک کابینہ اور انتظامیہ کام کررہی ہے۔ 2005ء کے زلزلے میں نہ صرف مظفر آباد ، بلکہ بہت سے علاقے زمین بوس ہوگئے ۔ کئی چھوٹے علاقے تو غرق ہوگئے اور اب وہاں بڑی بڑی جھیلیں ہیں۔ کشمیر کا علاقہ پرسکون ہے۔ گو کہ آج تقریباً ایک سال سے کنٹرول لائن پر گولیوں کی بوچھاڑ ہے۔ روز کوئی نہ کوئی بچہ یا بس ڈرائیور شہادت پا جاتاہے، لیکن لائن آف کنٹرول پر کوئی کنٹرول نہیں ۔پاکستان نے برِ صغیر کی کی تقسیم کے بعد کشمیر کے علاقوں کو آزاد کرنے کی کوشش کی۔ سردار ابراہیم اور سردار اعبدلقیوم خان نے کافی سارا علاقہ آزاد بھی کرالیا ، لیکن ہندوستان کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے سلامتی کونسل میں سیز فائر کی اپیل کی اور وعدہ کیا کہ جھگڑے والے علاقوں میں استصواب رائے کرادیا جائے گاتاکہ کشمیری اپنی مرضی سے اپنی زندگی کا فیصلہ کرسکیں۔ بدنصیبی کہیے پاکستان نے یہ تجویز قبول کرلی اور آج تک وعدہ ایفاء نہ ہوسکا۔کشمیری بے چارے سڑکوں پر نکلتے ہیں ، انڈین آرمی کے چھرے والی بندوقوں کا نشانہ بنتے ہیں، کسی کی آنکھ جاتی ہے، کسی کا جسم زخمی ، کسی کا چہرہ ،کوئی زندگی بھر کے لیے لنگڑا ہوجاتا ہے،لیکن جدو جہد جاری و ساری ہے۔
متعدد لوگ شہادت دے چکے ہیں، لیکن ہندوستان اسرائیل کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے خونِ نا حق پر تلا ہوا ہے۔ خونریزی اس لیے تیز ہوگئی ہے کہ اسرائیل نے فارمولا بتایا کہ اس نے بھی فلسطین میں مقامی لوگوں کو گولیوں کی بوچھاڑ  پر رکھا اور آج تک فلسطینیوں کے علاقے پر قابض ہے بلکہ اب تو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ ا علان کرکے کہ امریکی سفارتخانہ یرو شلم منتقل کردیں گے دنیا میں بے چینی پھیلا دی ہے۔
کشمیر میں ہمارا کیا رول ہے، پاکستان کشمیر میں ڈپلومیٹک حمایت جاری رکھنا اپنا فرض سمجھتا ہے، لیکن عملاً ہم نے کیا کیا؟ کچھ بھی نہیں ۔سردار عبدا لقیوم جب تک حیات تھے وہ باقاعدگی سے وفود لے کر دنیا کے سامنے کشمیریوں پر ہونیوالے مظا لم اور ان کے حق رائے دہی کے بارے میں مقدمہ پیش کرتے رہے ہیںلیکن زرداری صاحب کے زمانے سے اب تک  جمعیت علمائے اسلام کے سیکریٹری جنرل فضل الرحمن قومی اسمبلی کی پارلیمنٹری کمیٹی کے چیئر مین ہیں،ذرا بتائیں انہوں نے کشمیریوں کی حمایت میں دنیا کے سامنے کیا پیش کیا ؟نہ تو وہ کہیں جاتے ہیں، نہ ہی اقوام متحدہ ، امریکہ ، برطانیہ ،مغربی ممالک اور اسلامی ممالک کے سامنے کشمیریوں کا کیس رکھتے ہیں تاکہ دنیا میں ان کی حمایت میں رائے عامہ اجاگر کی جائے ، کچھ بھی تو نہیں ہوتا، مولانا فضل الرحمن بس پاکستانی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔
کشمیر کمیٹی پر ایک اندازے کے مطابق 8کروڑ روپے سالانہ خرچہ آتاہے۔ اگر خرچ نہیں ہوا تو بجٹ میں تو یہ رقوم مختص ہے، تو پھر ہم تنہا کیوں ہوتے جارہے ہیں۔دنیا ئے اسلام کوسوال کا جواب چاہیے؟کمزوری ہماری ہے ۔ہم نے دنیا کے سامنے اپنا نقطہ نظر اور کشمیریوں پر توڑے جانے والے مظالم کو دنیا کے سامنے پیش ہی نہیں کیا۔ ہندوستان کی بات سنی جاتی ہے، ہماری بات پر کوئی کان نہیں دھرتا،کتنے افسوس کی بات ہے ، بے چارے کشمیری جوشِ جنون میں لاکھوں کے مجمع میں پاکستان کا جھنڈا لہرا تے ہیں ،گولیاں بھی کھاتے ہیں، زندگی بھی ہارجاتے ہیں لیکن جذبے میں کوئی کمی نہیں آتی اور ہم ہیں کہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، کہاں کا انصاف ہے۔
پاکستانی حکومت کو فوری طور پر چاہیے کہ کشمیر کمیٹی دوبارہ تشکیل دے، اس میں ایسے لوگوں کو رکھا جائے جو کشمیر کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہوں۔دنیا کے سامنے ان کا مقدمہ بہ طریقہ احسن پیش کرسکیں، کچھ تو اثر ہوگا، دنیا کے کچھ لیڈران کی سمجھ میں آئیگا۔ہماری کمزوری یہی رہی ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ کشمیریوں کے بارے میں دفتر خارجہ کے ایک ترجمان وقتاً فوقتاً ایک بیان کشمیریوں کے بارے میں جاری کردیتے ہیں۔ کیا اتنا کافی ہے؟بالکل نہیں اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوگا۔محنت ہی رنگ لائیگی۔ 
کشمیر آپ کو ،ہم سب کو پکار رہا ہے۔مدد کے لیے ہاتھوں سے نہیں تو اخلاقی اور سیاسی مدد۔دنیاکے بڑے بڑے ایوانوں میں ان کی روداد سنائی جائے،تاکہ دنیا میں ہمدرد ی کا جذبہ پیدا ہوسکے۔ہمیں چاہیے کہ ہم یہ کرکے تو دیکھیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستانی وزیر اعظم کی تقاریر سے کشمیریوں کی حمایت سے کچھ نہیں ہوتا،جہد مسلسل جاری رکھنا چاہیے۔
 
 

شیئر: