پشتون تحفظ تحریک کی جانب سے پشاور میں جلسہ ٹویٹر پر زیربحث آیا ہوا ہے اور پاکستانی صارفین اس پر ملے جلے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔
سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ٹویٹ کیا : میں پشتون لانگ مارچ کے حمایت کا اعلان کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کی ان لوگوں کو جلد انصاف ملے گا۔
احمد نورانی نے ٹویٹ کیا : پاکستانی قوم پشتون لانگ مارچ اور پشتون تحفظ تحریک کے ساتھ کھڑی ہے۔ میڈیا کا اس لانگ مارچ کو کوریج نہ دینا قابل مذمت ہے۔ ہزاروں پشتون اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر آگئے ہیں۔
رفیع اللہ کاکڑ کا کہنا ہے : ہم کسی کے ایجنٹ نہیں بلکہ فاٹا ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے عوام ہیں۔ جو لوگ ہمیں دہشتگرد ثابت کررہے ہیں اور قتل کر رہے ہیں وہ ہمارے دشمن ہیں اور جو ہمارے خطے میں امن کے خواہاں ہے اور ہماری روایات کا احترام کرتے ہیں وہ ہمارے دوست ہیں۔
سماجی کارکن نگہت داد نے ٹویٹ کیا : گو کہ میڈیا اس تحریک کو کوریج نہیں دے رہا لیکن انٹرنیٹ نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کی ایک بڑی تحریک ہے جو زندہ رہنے کے بنیادی حق اور لاپتہ افراد کی واپسی کے لیے چلائی جارہی ہے۔
فرحان ورک نے کہا : پشتون تحفظ لانگ مارچ بری طرح ناکام ہوا ہے۔ اس میں شامل زیادہ تر وہ افغانی مہاجرین تھے جو ڈی پورٹ ہونے کے خطرے کی وجہ سے اس تحریک کا ساتھ دے رہے ہیں۔
سمیہ منصور نے ٹویٹ کیا : جب تحریک طالبان نے سوات ، وانا اور دیگر پشتون آبادی علاقوں پر قبضہ کیا ہوا تھا اور پشتونوں کو بے دردی سے مارتے تھے تب منظور پشتین کہاں تھا ؟ سانحہ قندوز میں اتنے بچوں کو شہید کیا گیا تو کیا وہ بچے پشتون نہیں تھے؟ منظور پشتین ان بچوں کے لیے کچھ نہیں بولا۔
عابد اتوزئی کا کہنا ہے : بی بی سی ، مشال ریڈیو اور وائس آف امریکہ جیسے بڑے پلیٹ فارمز کی جانب سے ایک ماہ سے جاری مہم کے بعد اس سے کہیں زیادہ مجمع جمع ہونا چاہیے تھا۔ یہ لانگ مارچ پوری طرح ناکام ہوا ہے ۔