اردن کے مظاہرے، روزی روٹی کا نتیجہ ہیں یا سیاسی کھیل
عبدالرحمن الراشد۔ الشرق الاوسط
عرب دنیا میں عرب بہار کا سلسلہ ایک بار پھر چل نکلا ہے۔ اردن میں جو کچھ ہورہا ہے، اس نے ایک روایتی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔ ابتک کہا جاتا رہا ہے کہ عرب دنیا کے شاہی نظام عوامی انقلاب سے محفوظ ہیں۔ دسیوں ہزار اردنی مظاہرین شدید اور تیز رد عمل دکھا رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عمان کا ”چوتھا چوراہا“( الدوار الرابع) ، قاہرہ کے میدان التحریر سے مختلف ہے۔ اردن کے مظاہرے سیاسی موسم بہار کے نمائندہ نہیں لگتے۔ یہ الگ بات ہے کہ اخوانیوں کے گروہ اور قطری ٹی وی اسٹیشن یہی تاثر دینے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ انکم ٹیکس اور مہنگائی کیخلاف ہونیوالے مظاہرے اردن کے سیاسی نظام کیخلاف احتجاجی مظاہروں کے نمائندہ ہیں۔ جہاں تک میری اپنی ذات کا تعلق ہے تو میں عمان 2روز رہ کر آیا ہوں ۔ وہاں پیش آنیوالے واقعات اور ہنگاموں کا عینی شاہد ہوں۔میں نے اردن کے مقامی امور میں دلچسپی لینے والے کئی لوگوں سے ملاقاتیں کیں ۔اردن کے اقتصادی مسائل پر بات چیت ہوئی۔ مہنگائی ، ملازمتیں ، انکم ٹیکس کے حوالے سے کافی کچھ سننا پڑا۔ اردن میں نئی سیاسی قیادت نے جنم لیا ہے۔ یہ قیادت لوگوں کے قریب ہے۔ ایسی صورت میں اپنی حکومت کو چلتا کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کریگی بشرطیکہ یہ حکومت عوام کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرنے میں ناکام ہوتی ہے ۔ اردن کے فرمانروا نے ہانی الملقی کو یہ بات بہت واضح الفاظ میں بتا بھی دی تھی ۔ انہوں نے مشورہ قبول نہیں کیا ،خمیازہ بھگتنا پڑا ۔ اب اردن کے فرمانروا نے عمر الرزاز کو وزیر اعظم نامزد کیا ہے۔ انکی بابت لوگوں میں مختلف قسم کی باتیں گردش کررہی ہیں۔ایک کا کہنا ہے کہ اس کی الرزاز اور الملقی دونوں سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ دونوں ہی شامی شہر حماسے تعلق رکھتے ہیں۔ ملقی ہی رزاز کو لائے ہیں تاہم اردن کا اصل مسئلہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اردن کی بھاری اکثریت انکم ٹیکس کےخلاف ہے۔ بےروزگاری کے حوالے سے آواز اٹھا رہی ہے۔ اردن میں بیروزگاری کی شرح 18فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔اردنی عوام خارجی مدد میں کمی اور افرادی قوت کی صلاحیتوں میں گراوٹ پر نالاں ہے۔
اردن میں بحرانوں کو کنٹرول کرنے والا ادارہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ اس ادارے کی کوشش ہے کہ مسئلے کو دھماکہ خیز ہونے سے قبل ہی حل کرلیا جائے۔ اسی تناظر میں اردنی وزیر اعظم کو برطرف کرکے نئے وزیر اعظم کی تقرری کا فیصلہ کیا گیا۔ جب جب اردن میں بحران شدت اختیار کرتے ہیں تب تب وزیر اعظم کی چھٹی کردی جاتی ہے۔ یہ وہاں کی روایت ہے۔
اردنی قیادت کے سامنے مسائل کے حل کے حوالے سے اختیارات محدود ہیں۔ اس کا خاص پہلو یہ ہے کہ عوام انتہائی غصے کے عالم میں ہےں اور مقتدرہ اسے کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اردن نصف صدی سے زیادہ عرصے سے شامی پناہ گزینوں کی منزل اور ان کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے ۔ان سے قبل عراقی اور ان سے پہلے فلسطینی اردن پہنچ چکے ہیں۔ اس طرح اردن کے اصل باشندوں کی تعداد پناہ گزینوں کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہوگئی ہے۔
اگر اردن کی بھاری اکثریت معاشی مسائل کے حل کیلئے احتجاج پر نکل کھڑی ہوتی ہے ، اگر وہ انکم ٹیکس کیخلاف شور برپا کرنے کا تہیہ کرلیتے ہیں تو ایسی صورت میں یہی کہا جائیگا کہ اردن کی اقلیت سیاسی بنیادوں پر مسئلے کو حل کرنے پر زور دے رہی ہے جبکہ بھاری اکثریت کا رویہ مختلف ہے۔
اگر اردن کی بھاری اکثریت معاشی مسائل کے حل کیلئے مظاہرے کررہی ہے اور ملازمتیں دینے کا مطالبہ کررہی ہے تو دوسری جانب کچھ آوازیں ایسی بھی ہیں جن کے محرکات سیاسی ہیں اور یہ لوگ اقلیت میں ہیں۔ وہ بھی اپنے مطالبات کیلئے آواز بلند کررہے ہیں۔
اردن کا معروف طریقہ¿ کار یہی رہا ہے کہ وہ مصالحتی حل لے آتا ہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ اردن کی حکومت مسائل کو حل کرنے کیلئے جو تجاویز لائےگی، اس سے عوام میں غیض و غضب کی لہر محدو د ہوجا ئیگی۔ عوام کا غصہ ٹھنڈا ہوگا لیکن اس قسم کے عمل سے اردن کا بحران ٹھوس بنیادوں پر حل نہیں ہوگا۔ اردن کے موجودہ اقدامات عارضی نوعیت کے ہونگے۔ دیرینہ مسائل جیسے ہیں ویسے ہی رہیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ اردن میں آمدنی کے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عراق اور خلیج کے مقابلے میں اردن کامسئلہ مختلف ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ جو ممالک آمدنی کے وسائل میں قلت کی صورت میں ہالینڈ والے بحران سے دوچار ہیں، انہیں موثر انتظامی نظام کی اشد ضرورت ہے۔انہیں زیادہ اسپیشلسٹ پروگرام درکار ہیں۔ انہیں بدعنوانی کیخلاف ٹھوس اقدامات کرنے ہونگے۔ انہیں ریاست اور اس کے اداروں کی اصلاح کرنی ہوگی۔ یہ سارے اصول تمام ممالک پر لاگو ہوتے ہیں البتہ اردن ، تیونس اور ان جیسے ممالک کو مذکورہ امور کی زیادہ ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭