Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کچھ علاج اس کا !

***جاوید اقبال***
قرائن و شواہد اور ہمارے لچھن تو اسی اندوہناک صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جس طرح کے واقعات منظر عام پر آرہے ہیںوہ تو اسی المناک حقیقت کی غمازی کرتے ہیں کہ رفتہ رفتہ غالبا نصف صدی میں اردو زبان ایک درجن یا شاید نصف درجن ضعیف انسانوں کے لیے باہمی ربط کا وسیلہ ہی رہ جائے گی۔ میں اپنی بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ ماہ صیام ہمارے وطن میں ذرائع ابلاغ پر دیوانگی طاری کرتا ہے۔ بھانت بھانت کے اور رنگا رنگ پروگرام ٹی وی پر یلغار کرتے ہیں۔ صنف نازک اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ رنگ بکھیرتی ہے اور مختلف اسٹیشنوںپر ریٹنگ کے لیے مقابلوں کا میدان جمتا ہے۔ اس برس تو عدالتی حکمنامے کا اجراء کیا گیا تھا جس کی وجہ سے طنابیں کھنچی رہیں تاہم بعض پروگرام ایسے پیش ہوئے جنہیں دیکھ کر شرکاء کے پول کھل گئے۔ ایسے ہی ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں اینکر خاتون اور ایک بچہ میزبان بن کر ملک کی مختلف معروف شخصیتوں کو مدعو کرتے رہے۔ پروگرام کے اواخر میں دونوں میزبان اپنے ہر مہمان کی اردو تحریر کا امتحان لیتے رہے۔ اسے 7,8  الفاظ دیے جاتے اور کہا جاتا کہ وہ ان الفاظ کو بورڈ پر لکھے۔ بڑی المناک صورتحال ہوتی۔نامی گرامی راہنما اور معروف شخصیتیں فاش غلطیاں کرتی رہیں۔ ایک پروگرام میں کراچی کے مشہور اور دلعزیز راہنما شاہی سید مہمان تھے۔ اختتام سے قبل اینکر خاتون اور بچے نے انہیں املا دی۔ شاہی سید نے گتھم گتھا کو گھتم گھتا لکھا۔ گفت وشنید کو گھفتو وشنید کا جامہ پہنادیا۔ سریر خامہ کو بھی بگاڑ کر سریر خاما لکھ دیا۔ گیسوؤں کے سائے کو گھیسوں کے سائے لکھا۔ لفظ چچیرا کو چھچھیراکا روپ دے گیا اور چیچہ وطنی کو چیچا وتنی لکھ دیا۔ ملک کی معروف سیاسی جماعت کے اس طاقتور سیاستدان نے قومی زبان کی تحریر کا امتحان دیا اور 7 الفاظ میں سے صرف ایک لفظ درست لکھا۔ان کے ہمراہ ایک اور مہمان بھی تھیں۔ نام تو ان کا عبیر رضوی تھا لیکن چینل پر بیٹھے تجربہ کار پروگرام ڈائریکٹر نے ان کے نام کی ’’ابیر رضوی‘‘ کی پٹی چلائے رکھی۔ ان محترمہ کا اردو کا معیار بھی کچھ قابل رشک نہیں تھا۔ چچیرا چہیتا کو چھچرا چھتا لکھا چیچہ وطنی کو چھچا وطنی کا نام دے دیا اور چونسٹھواں کو چھنسٹرواں لکھ دیا۔ پھر اسی پروگرام میں اگلے دن معروف اداکار عابد علی مہمان تھے۔ پروگرام کے اسی حصے میں اردو زبان پران کی آگاہی بھی قابل ملامت تھی۔ موصوف نے لفظ روابط کو روابت لکھا، اثبات کو اسبات تحریر کیا، قسطنطنیہ کو قستنتنیا اور معرکہ کو مارکا کا روپ دے دیا۔ علامہ اقبال کی ضرب کلیم ، زرب کلیم بن گئی۔ یقین نہیں آتا کہ یہ شخص ہزاروں صفحات تحریری اردو کے ازبر کرکے انہیں کیمروں کے سامنے ادا کرتا ہے لیکن اردوزبان کی مخدوش حالت کا احساس تب ہوا جب اس پروگرام میں ایم کیو ایم کے مشہور زمانہ راہنما ڈاکٹر فاروق ستار مہمان ہوئے۔ پروگرام کے اس حصے  میں جب ان سے مختلف الفاظ تحریر کرنے کو کہا گیا تو ناقابل یقین غلطیاں کیں۔ اردو کے لفظ ’’املا‘‘ کو املے لکھ گئے۔ قسطنطنیہ لکھنے میں بھی غلطی کا ارتکاب کر گئے۔ 10 الفاظ دیے گئے تھے جن میں سے صرف 5 صحیح لکھے۔ اردو ڈاکٹر فاروق ستار کی مادری زبان ہے اور ایم کیو ایم والے اسی زبان کے سہارے اپنی ثقافتی اور سیاسی شناخت کے دعویدار ہیں تو جب اردو زبان کے اپنے گھر میں اس کا یہ حشر ہورہا ہو تو نوشتہ دیوار تو ہر ایک پڑھ لیتا ہے۔ انداز تحریر کسی بھی زبان کی زندگی اور اس کے مستقبل کی ضمانت ہوتا ہے۔ زبان کو صرف گفتگو تک محدود کردیں۔ اس کا زوال جڑ پکڑ لیتا ہے۔ برصغیر میں اردو کے عروج کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ اسے انتہائی دیدہ زیب تحریر میسر تھی۔ تقسیم سے پہلے اردو تھی اور ہر طرف تھی۔ فارسی اور عربی سے طرز تحریر مستعار لے کر اردو نے اپنے شباب کی طرف قدم بڑھایا۔ 19ویں اور 20ویں صدی میں اس کا بولا لفظ کانوں میں حلاوت گھولتا تھا تو اس کی تحریر کی دلکش تجسیم آنکھوں کو طراوت بخشتی تھی۔ اردو کا استعمال تہذیب و ثقافت کا ثبوت سمجھا جاتا تھا۔ ہندو ، سکھ ، مسلمان اور دوسرے مذاہب کے پیروکار اس زبان ریختہ کا استعمال کرکے فخر محسوس کرتے تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے والد پنڈت موتی لال نہرو نے اپنے بیٹے کی شادی کے دعوت نامے اردو میں چھپوائے اور انتہائی نفیس زبان استعمال کی۔ شادی کے دن کے لیے تیار کردہ دعوت نامہ ملاحظہ ہو:
التجا ہے کہ بروز شادی 
برخور دار جواہر لال نہرو بتاریخ 7 فروری 1916ء بوقت 4 بجے شام 
جناب مع عزیزان غریب خانہ پر چاء نوشی فرماکر بہم ھئی نوشہ
دولتخانہ سمدھیان پر تشریف شریف ارزائی فرماویں
 نہرو ویڈنگ کیمپ             بندہ موتی لال نہرو
منی پور روڈ ۔ دہلی
اور پھر دعوت ولیمہ کا کارڈ بھی انتہائی دیدہ زیب اور دلکش اردو میں شائع کیا گیا تھا۔
وہ کچھ یوں تھا:
شادی برخوردار جواہر لال نہرو
ساتھ دختر پنڈت جواہر مل کول صاحبہ 
آرزو ہے کہ بتقریب آمدن بہورانی بتاریخ 9 فروری 1916ء بوقت 8 بجے شام جناب مع عزیزان غریب خانہ  پر تناول ماحضر فرماکر مسرت و افتخار بخشیں۔
بندہ موتی لال نہرو        نہرو ویڈنگ کیمپ
منی پور روڈ ۔ دہلی
تشکیل پاکستان کے بعد ہی ہندوستان نے اردو رسم الخط کو ترک کردیا تھا اور اسے مسلمانوں کی زبان قرار دے کر پاکستان کے حوالے کردیا۔ وطن عزیز کے لیے یہ باعث عزت و افتخار تھا۔ انتہائی نفیس ادب تخلیق ہوا۔ اعلی پائے کے ادباء نے زبان کی تجمیل کی۔ ابتدائی مدرسے سے ہی لوح چوب پر حروف کی تشکیل ہوتی رہتی۔ 5,5 سالہ بچے سرجھکائے اپنی املا کا حسن یقینی بناتے اور یوں پاکستان کی 5,6   دہائیاں بڑے سلیقے سے گزر گئیں۔ لیکن آج ! ! دنیا کی دو ہزار زبانیں عدم وجود کے انجام کی طرف بڑھ رہی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تحریر کا چلن آہستہ آہستہ ختم ہوگیا ہے۔ سب سے کم بولی جانے والے زبان جیرپ نام سے جانی جاتی ہے۔ نائیجیریا میں صرف4 ضعیف آدمی اسے بولتے ہیں لیکن وہ اسے لکھ نہیں سکتے۔ چاروں چراغ ہائے سحری ہیں۔ ان کے جانے پر اس زبان کا ذکر حروف تہجی استعمال نہ ہوں اس کے بڑے درست تحریر کو فراموش کرتے جاتے ہوں تو اس زبان کو جینے کا حق کہاں سے حاصل رہے گا؟ 1973ء کے آئین میںہماری قومی زبان اردو ہے۔ اور آج ہمارے بچے اپنے موبائل لاطینی حروف میں پیغامات کے تبادلے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں ؟
 

شیئر:

متعلقہ خبریں