ثانیہ سعید کہتی ہیں: ہندوستانی خاتون ایڈیٹر گوری لنکش کے قتل پر خوشیاں منانے والے اب شجاعت بخاری کے قتل پر مسرت کا اظہار کررہے ہیں۔ آپ لوگ حقیقت کو جتنا جھٹلائیں لیکن ملک سے صبر و تحمل اور برداشت کا مادہ ختم ہوتا جارہا ہے۔
بئینت جے پانڈا کہتے ہیں: میں اس قتل کی پرزور مذمت کرتا ہوں۔ ہمیں ا ن کے خیالات سے اتفاق ہویا نہ ہو لیکن ہرشخص کو آئینی حقوق کیلئے کھڑے ہوجانا چاہئے۔ اللہ شجاعت بخاری کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔
سمیت کٹیار سوال کرتے ہیں: کیا آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ شجاعت بخاری کو نامعلوم افراد کے بجائے کسی اور نے مارا ہے۔
عمر عبداللہ کہتے ہیں :ان سے میری ملاقات طے تھی لیکن معلوم نہیں تھا کہ شجاعت سے اب میری کبھی ملاقات نہ ہوسکے گی۔ زندگی کتنی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔
دلیپ شریان لکھتے ہیں: شجاعت بخاری کے قتل سے اس امر کی یاد دہانی ہوئی کہ آزاد آوازوں پر حملے جاری ہیں۔ یہ میڈیا کیلئے بھی پیغام ہے۔