حسن علی العمری ۔ مکہ
سعودی عرب کے آئین کی پہلی دفعہ میں یہ بات تحریر ہے کہ عربی زبان ہی ریاست کی سرکاری زبان ہوگی۔ یہ بات عربی زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور تمام معاملات میں اس کی پابندی کرنے کے لئے تحریر کی گئی ہے۔
میں یہاں عربی زبان کی اہمیت اور اسکی تاریخ کا تذکرہ نہیں کرونگا۔ سب جانتے ہیں کہ عربی زبان دین اسلام کی زبان ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ یہ قرآن کریم کی زبان ہے۔ ہر کس و ناقص اس حقیقت سے واقف ہے کہ عربی زبان نے قدیم تہذیبوں کو کمال کی منزل تک پہنچانے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عربی زبان دیگر عالمی زبانوں میں کئی حوالوں سے انفرادی حیثیت کی مالک ہے۔ اس کے مفردات واضح ہیں۔ عربی زبان اپنی معانی میں گہرائی رکھتی ہے۔ اس کے ا لفاظ ایک سے زیادہ معانی اپنے اندر سموئے ہوتے ہیں۔ میں یہاں اس بات پر اظہار مسرت کرنا چاہوں گا کہ وزارت تعلیم کے کورس میں عربی زبان کے حوالے سے بعض مضامین بحال کردیئے گئے ہیں۔ مثال کے طورپر املا اور انشا کے مضامین ختم کردیئے گئے تھے، ایک بار پھر مقرر کردیئے گئے۔ یہ دونوں مضامین گزشتہ عشروں کے دوران نہ جانے کس کی کارستانی کی وجہ سے ہمارے کورس سے جان بوجھ کر ہٹا دیئے گئے تھے۔ اسکا نقصان یہ ہوا کہ سعودی عرب میں اس دوران جس نسل نے جنم لیا اور نشوونما پائی وہ کارٹونی نسل کہی جاسکتی ہے۔ یہ عربی زبان سے بے بہرا ہے۔ اسے اپنی مادری زبان کی” الف با“ تک اچھے طریقے سے معلوم نہیں۔ یہ تحریف شدہ عربی زبان بولتی اور لکھتی ہے۔ یہ عربی اور انگریزی دونوں زبانوں کو ایک دوسرے میں گڈ مڈ کرکے نئی زبان تخلیق کئے ہوئے ہے۔ ہمیں بڑی محنت کرنا ہوگی۔ اس کے بغیر یہ نسل اپنی مادری زبان کی جانب واپس نہیں آسکے گی۔
سوشل میڈیا پر عربی فکر کے امیرگورنر مکہ مکرمہ شہزادہ خالد الفیصل کا وہ بیان وائرل ہوگیا جس میں انہوں نے اپنے فرزندوں کے ہاتھوں عربی زبان کے حال پر گہرے رنج و ملال کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے بڑے دکھ اور درد کے ساتھ تذکرہ کیا تھا کہ عرب بچے عربی زبان کو زندہ درگور کئے ہوئے ہیں۔ شہزادہ خالد الفیصل نے عسیر ریجن کی گورنر شپ کے دوران ابہا کے ایک تعلیمی مرکز میں عربی زبان سکھانے کا منفرد تجربہ کیا تھا۔ انہیں احساس تھا کہ عربی زبان میں دسترس حب الوطنی کی انتہائی اہم ضرورت اور علامت ہے۔ کسی بھی قوم کو وطن سے محبت کا جذبہ راسخ کرنے کیلئے اپنی زبان کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ ہر کس و ناکس نے گواہی دی تھی کہ خالد الفیصل نے تعلیمی مرکز میں عربی زبان سکھانے کا جو تجربہ کرایا تھا اس کے خوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔ طلباءاوراساتذہ دونوں اس تجربے سے فیض یاب ہوئے۔
عرب دنیا میں مختلف سطحوں پر مختلف مقامات میں عربی زبان کے فروغ اور بقاءکی کوششیں ہورہی ہیں تاہم ڈاٹ کام ویب سائٹ کا تجربہ میری نظر میں بڑا مختلف ہے۔ اسکے بانی نے جو کام کیا ہے وہ قابل قدر ہے۔ عربی زبان کے ایک استاد اور اس کے پروانے کی حیثیت سے ویب سائٹ کے بانی نے اپنی مالی اور جسمانی صلاحیت سے بڑھ کر عربی زبان کی بقا ءاور فروغ کا کارنامہ انجام دیا۔ اب یہ ویب سائٹ نحو و صرف اور عربی زبان کے تمام محبین اور طلباءکا مرکز بن گئی ہے۔ اس ویب سائٹ پر منفرد انداز میں عربی زبان اور نحو کے متعدد مفید پروگرام پیش کئے گئے ہیں۔ انہیں منفرد انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔
افسوس کا پہلو یہ ہے کہ ویب سائٹ کے بانی کے بیمار ہونے کے بعد سے یہ ویب سائٹ کمزور پڑنے لگی ہے۔ بانی اب اسے اپنی صحت کی خرابی کے باعث مطلوبہ وقت نہیں دے پاتے۔ اسکے منفی اثرات مرتب ہونے لگے ہیں۔
ویب سائٹ کے بانی نے اپنی ویب سائٹ کو بچانے کی اپیل بھی کردی ہے۔ یہ عربی زبان سے محبت رکھنے والے ہر انسان کیلئے پیغام ہے۔ جو بھی اس جہت میں آگے بڑھ سکتا ہے اُسے بڑھنا چاہئے تاکہ یہ منفرد ویب سائٹ عربی نحو و صرف و عربی زبان کی ترویج و اشاعت کے حوالے سے مینارہ نور بنی رہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭