شام میں اسرائیلی جاسوس کا راز کیسے فاش ہوا؟
اسرائیلی اور روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق شام میں نائب وزیر دفاع کے عہدے تک پہنچنے والے اسرائیلی جاسوس ایلی کوہن کی باقیات سزائے موت کے 54 برس بعد روس کے تعاون سے اسرائیل منتقل کردی گئیں،تاہم اسرائیل نے ایلی کوہن کی باقیات وصول کرنے کے حوالے سے سرکاری طور پر تردید یا تصدیق نہیں کی ہے۔
اسرائیلی میڈیا کی جانب سے جاری کی گئی تفصیل کے مطابق ایلی کوہن کو جاسوسی کا الزام ثابت ہونے پر شام نے 1965ءمیں سزائے موت دی تھی۔
ایلی کوہن 1960ءکی دہائی میں عرب ممالک میں اسرائیل کے سب سے اہم جاسوس تھے۔ وہ کئی ممالک سے ہوتے ہوئے شام پہنچے اوروہاں وزارت دفاع میں اثر و رسوخ حاصل کیا۔ ایلی کوہن اپنی گرفتاری کے وقت شام میں نائب وزیر دفاع کے منصب تک پہنچ چکے تھے۔ اگر انہیں مزید وقت مل جاتاتووہ ممکنہ طور پر وزیر دفاع کا قلمدان حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔ اتفاقاً اس کا انکشاف ہوا اور شامی حکومت نے انہیں گرفتار کرکے عدالتی کارروائی کے بعد سزائے موت دےدی۔
ایلی کوہن کون تھا؟
ایلی کوہن 26دسمبر 1924ء کو مصر کے شہر اسکندریہ میں پیدا ہوئے۔ مصری پیدائشیسرٹیفکیٹ کے مطابق ان کا نام ایلیاہو شاول کوہن تھا۔ ان کا خاندان شام کے شہر حلب سے مصر آیا تھا۔ابتدائی تعلیم اسکندریہ کے یہودی مدارس سے حاصل کی۔ بعدازاں قاہرہ یونیورسٹی میں انجینئرنگ کالج میں داخلہ لیا، تاہم وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکے۔ کوہن کو عربی اور عبرانی زبان کے علاوہ فرانسیسی زبان پر عبور حاصل تھا۔
20 سال کی عمر میں کوہن عالمی صیہونی تحریک میں شامل ہوئے۔ مصر میں کام کرنے والے جاسوس نیٹ ورک سے وابستہ ہونے کے بعد انہوں نے معروف اسرائیلی جاسوس جان ڈارلنگ کی سرپرستی میں کام شروع کیا۔
1956ء میں مصر پر امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے مشترکہ حملے کے وقت کوہن کو مصری حکومت نے گرفتار کرکے دو برس تک قید رکھا۔ رہائی کے بعد 1957 میں کوہن اسرائیل روانہ ہوگئے۔
اسرائیل میں قیام کے دوران کوہن صحافت سے وابستہ ہوگئے اورعرب اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹوں کاعبرانی زبان میں ترجمہ کرنے کا کام کرنے لگے۔کوہن نے بعدازاں اسرائیلی انٹیلی جنس ادارےموساد میں شمولیت اختیار کرلی۔
موساد نے انہیں شام کے دارالحکومت دمشق میں جاسوسی کی ذمہ داری سونپی اور اس مشن کو آسان بنانے کے لیے بھرپور تیاری کرائی۔ کوہن کو مسلمان کے طور پر شناخت دی گئی۔سرکاری دستاویزات میں ان کا نام کامل امین ثابت رکھا گیا۔
کوہن کوایک برس کے لیے ارجنٹائن بھی بھیجا گیا ۔ انہیں وائرلیس کے استعمال کے علاوہ خفیہ سیاہی استعمال کرنے کی بھی تربیت دی گئی۔ جاسوسی کے لیے کوہن کو شام کی سیاسی اور معاشی صورتحال سے مکمل آگاہی کے ساتھ قرآن مجید او راسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی آگاہ کیا گیا۔
تربیت مکمل کرنے کے بعد کوہن دوبارہ ارجنٹائن چلے گئے اور ایک مسلمان شامی شہری کامل امین کے نام سے کاروبار شروع کیا اور شامی تارکین میں گھلنے ملنے لگے۔ انہوں نے شامی سفارتخانے کے اہلکاروں کے ساتھ تعلقات بھی قائم کر لیے۔
ارجنٹائن میں شامی سفارتخانے کے فوجی اتاشی کرنل امین الحافظ سے گہرے تعلقات استوار کیے جوبعدازاں شام کے صدر بھی بنے۔ 1962 میں کوہن دمشق منتقل ہوگئے جہاں فوج اور سیاستدانو ں
کے ساتھ تعلقات قائم کرکے سب کے منظور نظر بن گئے۔ انہیں وزارت دفاع میں اہم عہدے پر فائز کیا گیاجہاں وہ وزیر دفاع کے مشیر اور بعدازاں نائب وزیر بنا دیے گئے۔
راز کیسے فاش ہوا؟
کوہن کا راز کیسے فاش ہواس بارے میں دومختلف کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔ ایک کہانی کے مطابق ان کا راز اسرائیل میں مصری جاسوس رفعت الجمال نے ظاہر کیا۔رپورٹس کے مطابق رفعت الجمال کو معلومات حاصل ہوئیں کہ شام کا نائب وزیر دفاع اور مشیر اسرائیل کا جاسوس ہے۔ انہوں نے فوری طور پر مصری حکام کواس کی اطلاع دی جنہوں نے شامی حکومت کو اس بارے میں آگاہ کر دیا۔
دوسری کہانی کے مطابق ایلی کوہن دمشق میں انڈین سفارتخانے کے قریب رہتے تھے۔ انڈین سفارتخانے کے اہلکاروں نے متعدد بارایسے وائرلیس سگنلز وصول کئے جو سفارتخانے کے وائرلیس پر موصول ہورہے تھے۔ اس کے علاوہ اس وجہ سے سفارتخانے کا وائرلیس نظام بھی متاثر ہورہا تھا۔
انڈین سفارتخانے کے اہلکاروں نے شامی حکام کو بتایا کہ ان کے سفارتخانے کے قریب کوئی شخص وائرلیس استعمال کررہا ہے جس کے سگنلزسے سفارتخانے کا وائرلیس نظام متاثر ہورہا ہے۔ شامی حکام نے معاملے کی چھان بین کر کے وائرلیس سگنلز کے مقام کا سراغ لگا لیا۔ اس کے بعد شامی حکام نے چھاپہ مارکر ایلی کوہن کورنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ عدالتی کارروائی سے گزارنے کے بعد 18مئی 1965 کوایلی کوہن کو سزائے موت دے دی گئی۔
ایلی کوہن کی باقیات کے مطالبات
اسرائیلی حکام نے متعدد مرتبہ شامی حکومت سے ایلی کوہن کی باقیات حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ آخری مرتبہ سن2004 میں اسرائیل نے فرانس، جرمنی اور اقوام متحدہ کے توسط سے صدر بشار الاسد سے تعاون کی اپیل کی تھی۔ شام نے باقیات حوالے کرنے سے اس لیے انکار کیا تھا کہ شام اور اسرائیل کے درمیان اس طرح کا کوئی معاہدہ موجودنہیں تھا۔
شامی حکام کا کہنا ہے کہ ایلی کوہن نے اسرائیلی حکام کو گولان کی چوٹیوں کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی تھیں اور ان کی فراہم کردہ معلومات کی بدولت اسرائیل کے لیے گولان پر قبضہ آسان ہوگیا۔ شامی حکام کے مطابق ایلی کوہن نے شامی فوج کے بارے میں بھی اہم معلومات اسرائیل کو فراہم کی تھیں۔