’ملک کے ساتھ جس نے بھی ظلم کیا،انکوائری ہونی چاہیے‘
’ملک کے ساتھ جس نے بھی ظلم کیا،انکوائری ہونی چاہیے‘
جمعرات 18 جولائی 2019 3:00
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
وزیراعظم کے معاون خصوصی اور ترجمان ندیم افضل چن نے آرمی چیف کی قومی ترقیاتی کونسل میں شمولیت کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں بھی حکومتیں فوج سے پس پردہ مشورے کرتی رہی ہیں تو ہم ایسا کھل کے کر رہے ہیں۔
اردو نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کے دوران وزیراعظم کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیکورٹی کی صورتحال کے باعث پاک فوج میعشت اور ترقی میں شراکت دار ہے۔
’پس پردہ بھی تو آپ مشورے کر رہے ہوتے ہیں ساری حکومتیں کرتی رہی ہیں تو ہم کھل کر اپنے ملک کی فوج کے ساتھ کر رہے ہیں ناں مشورے۔‘
وزیراعظم کی جانب سے حال ہی میں قائم کی جانے والی قومی ترقیاتی کونسل میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی شمولیت اور معیشت میں فوج کے کردار پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کے حوالے سے ابھی مثالی صورتحال نہیں ہے اوراس میں ابھی وقت لگے گا۔
’میں نے کہا ہے کہ آئیڈیل صورتحال نہیں ہے یہ تو پہلے بھی کہا ہے کہ ابھی ٹائم لگے گا ہماری جمہوریت کو لیکن یہ بھی دیکھیں کہ اس وقت سیکورٹی صورتحال کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ فاٹا اور بلوچستان کی معیشت ترقی اور امن و امان کی بات ہو تو اس میں سیکورٹی ادارے شراکت دار ہیں کیوں کہ وہاں ایک لڑائی چل رہی ہے۔
کراچی میں امن وامان اور معیشت کی بحالی میں ڈی جی رینجرز بھی شراکت دار ہیں اور کور کمانڈر بھی شراکت دار ہیں۔
اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے آرمی چیف کو قومی ترقیاتی کونسل کا ممبر بنایا گیا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا معشیت کو فوج نہیں وزیراعظم چلا رہے ہیں کیوں کہ وہ چیف ایگزیکٹو ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو دوسروں کی مداخلت سے بچنے کے لیے خود بھی رول ماڈل بننا ہو گا اور’ہمیں خود اپنے اندر وزیر خزانہ پیدا کرنے ہوں گے، وزیرقانون پیداکرنے ہوں گے۔ اپنی پارٹیز کے اندر سے لوگوں کی ان عہدوں کے لیے تربیت کرنا ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتیں اور پھر دوسروں پر مداخلت کی بات کرتی ہیں۔
ندیم افضل چن کے مطابق آرمی چیف کا وزیراعظم کے ساتھ امریکہ جانا خوش آئند ہے کیوں کہ دورے کے دوران افغان امن عمل اور خطے کی سلامتی کے حوالے سے بات ہوگی۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے انہوں نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اس معاملے میں اعلان کریں گے۔
ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ ریکوڈک کیس میں ملک کو نقصان پہنچانے والے ججوں کے خلاف تحقیقات ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا وزیراعظم عمران خان نے پانچ وزرا پر مشتمل کمیٹی بنائی جو اس سلسلے میں حتمی فیصلہ دے گی۔
ان سے پوچھا گیا تھا کہ ریکوڈک معاملے پر کیا ججوں کے خلاف بھی نیب کاروائی کر سکتا ہے۔
’دیکھیں اس ملک کے ساتھ جس جس نے ظلم کیا خواہ ججز ہیں یا کوئی اور ہے ان کے خلاف انکوائری تو ہونی چاہیے۔‘
انہوں نے کہا اس سلسلے میں وزیراعظم نے پانچ وزرا پر مبنی ایک کمیٹی بنائی ہے جو اس سلسلے میں حتمی فیصلہ کرے گی ۔
یاد رہے کہ عالمی بینک کے سرمایہ کاری پر اٹھنے والے تنازعات کے تصفیے کے لیے بین الاقوامی سینٹر (انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹس) نے اس کیس میں پاکستان پر پانچ ارب 97 کروڑ ڈالرز کا جرمانہ عائد کیا ہے۔
ندیم افضل چن نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے ویڈیو سکینڈل کے حوالے سے بتایا کہ وزیراعظم کی ہدایات ہیں کہ اس تنازعے میں ملوث جج کا دفاع نہ کیا جائے۔
’ہمیں تو ہدایات یہ ہیں کہ آپ نے بالکل جج صاحب کا دفاع نہیں کرنا۔ آپ نے بالکل اس کا حصہ نہیں بننا۔ کیوں کہ یہ جج حکومت نے نہیں لگوایا۔‘
انہوں نے کہا کہ جج ارشد ملک کو عہدے پر نہیں رہنا چاہیے۔
’میں سمجھتا ہوں کہ ایسے ججز کو کیسز سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔ میرا ذاتی موقف تو یہ ہے کہ ایسے ججز بالکل نہیں ہونے چاہیے۔ ججز کو بڑا آئیڈیل ہونا چاہیے۔‘
ان کا دعویٰ تھا کہ جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی گرفتاری کا وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ان کو نیشنل ایکشن پلان کی حکومتی پالیسی کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
موجودہ حکومت کی بڑی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے وزیراعظم آفس میں کرپشن کے خاتمے، بیرونی دوروں میں فضول خرچی ختم کرنے، پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے اور احساس پروگرام کے تحت دو سو ارب روپے غریبوں کے لیے مختص کرنے جیسے منصوبوں کے بارے میں بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی آزاد اور متوازن خارجہ پالیسی بھی موجودہ حکومت کا کارنامہ ہے جس کے تحت ایک طرف تو سعودی عرب اور متحدہ امارت کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کیے گئے ہیں تو دوسری طرف ایران اور چین کے ساتھ بھی بہتر تعلقات قائم رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے دونوں ممالک مزید قریب آئیں گے۔
’پاکستان نے افغانستان میں امریکہ کی جنگ لڑی ہے جو تاریخی طور پر ثابت ہو چکا ہے دوسری طرف امریکہ نے بھی پاکستان کی ایف سولہ سمیت دفاعی اور دیگر امداد کی ہیں۔‘
موجودہ حکومت میں ترجمانوں کی کثرت کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ سرکاری طور پر ’وزیراعظم کا ترجمان صرف میں ہوں۔ باقی یہ کہ جتنے میڈیا چینلز ہیں اس حساب سے ترجمان ابھی بھی کم ہیں ہر وزیر حکومت کا ترجمان ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ وفاقی کابینہ میں عہدے کے باوجود تنخواہ یا کوئی مراعات نہیں لیتے بلکہ مہمانوں کو چائے بھی اپنے خرچے سے پلاتے ہیں۔
میڈیا کی طرف سے سنسرشپ کی شکایات پر انہوں نے کہا کہ صورتحال آئیڈیل نہیں ہے لیکن ماضی میں بھی میڈیا پر پابندیاں لگیں، مشرف اور نواز دور میں بھی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ دور بدل چکا ہے اب صحافیوں کو بھی اپنا رویہ بدلنا ہو گااور سیاستدانوں کو بھی۔ زرد صحافت اور لفافہ صحافت کی گنجائش نہیں رہی۔
جب ان سے پی ٹی آئی کےآفیشل سوشل میڈیا اکاونٹس کی جانب سے صحافیوں کے خلاف مہم چلانے کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے صحافیوں کے خلاف مہم نہیں چلائی جانی چاہیئے اور وہ اس سے متفق نہیں ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ رانا ثنا اللہ اور گرفتار سیاسی رہنماوں کو انصاف ملنا چاہیے۔
جب ان سے حکومت میں نیب زدہ لوگوں کی موجودگی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ نیب کی انکوائری اور ریفرنس میں فرق ہوتا ہے اور حکومت میں شامل کسی شخص پر ریفرنس نہیں ہے۔