Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عبدالقادر: وہ سپن بولنگ کا مسیحا تھا

عبدالقادر نے سولہ برس بین الاقوامی کرکٹ کھیلی۔ فوٹو: اے ایف پی
عبدالقادر کی بین الاقوامی کرکٹ میں آمد کے وقت لیگ سپن بولنگ کا فن نزع کے عالم میں تھا، و ہ اس فن کے لیے مسیحا بن کر آئے۔ فاسٹ بولروں کے جھرمٹ میں دھیرے دھیرے نمایاں ہوئے اور ان کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔
ٹیسٹ کرکٹ میں کامیابیوں کے باوجود ون ڈے کرکٹ کا در، ان کے لیے وا نہ ہوا کہ اس زمانے میں کرکٹ کے اس فارمیٹ میں لیگ سپنر کو کھلانے کا تصور محال تھا۔اسی وجہ سے ٹیسٹ کرئیر کے آغاز کے پانچ برس بعد ون ڈے کرکٹ میں ہنر آزمانے کی گھڑی آئی۔موقع ملتے ہی خود کو منوالیا اور پہلے ہی میچ میں عمدہ کارکردگی دکھا کر مین آف دی میچ کا ایوارڈ حاصل کیا۔ 
عبدالقادر نے سولہ برس بین الاقوامی کرکٹ کھیلی۔یہ بیٹسمینوں کے عروج کا زمانہ تھا، جتنے عظیم بیٹسمین اس دور میں دنیائے کرکٹ کو میسر آئے، اس کی مثال کسی اور عہد میں مشکل سے ہی ملے گی۔اس عرصے میں کوئی ایسا سپنر نہ تھا جس سے ان کا تقابل کیا جاسکتا ،کسی اور سپنر نے اس عرصے میں ان کے جتنی وکٹیں اور ناموری حاصل نہیں کی۔
دنیا بھر میں عظیم کھلاڑیوں اور مبصرین نے جس طریقے سے ان کے فن کو  پذیرائی بخشی ایشیا سے تعلق رکھنے والے کم ہی کھلاڑی اس کے حقدار ٹھہرے۔ عظیم ویوین رچرڈز ان کا دم بھرتے۔ شین وارن ان کی عظمت کے قائل۔ وہ دھرمپورہ میں ان کے گھر لیگ سپن بولنگ کے اسرار و رموز سیکھنے بھی آئے۔
شین وارن کے بقول ’اگر عبدالقادر نہ ہوتے تو 80 کی دہائی لیگ سپن بولنگ کے حوالے سے سیاہ دہائی کہی جاتی۔ وہ عین وہی کھلاڑی تھے جن کا تصور، بچپن میں گھر میں، کھیلتے ہوئے، میں کیا کرتا تھا۔ اگرچہ حقیقی کھیل میں میری اپروچ ان کے اچھلنے کودنے والے رن اپ سے بالکل مختلف تھی۔‘
اس کے علاوہ جنوبی افریقہ کے لیگ سپنر عمران طاہر سنہ 2012 میں انگلینڈ کا دورہ کرنے سے پہلے عبدالقادر سے ٹپس لینے خاص طور پر پاکستان آئے۔

جنوبی افریقی کھلاڑی عمران طاہر،عبدالقادر سے ٹپس لینے خاص طور پر پاکستان آئے( فوٹو:اے ایف پی) 

ممتاز کرکٹ مبصرین ڈیوڈ فریتھ اور جان وڈکاک نے انھیں شاندار لفظوں میں خراج تحسین پیش کیا۔ عظیم امپائر ڈکی برڈ نے آب بیتی میں اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم بنائی تو اس میں عبدالقادر کو شامل کیا اور وہ وجوہات بھی گنوائیں جن کی بنا پر انھیں شین وارن پر ترجیح دی گئی۔
کرکٹ کے معروف ویب سائٹ 'کرک انفو نے کرکٹ سے متعلق دس ممتاز شخصیات کی آرا کی روشنی میں پاکستان کی آل ٹائم گریٹ الیون بنائی تو عبدالقادر اس کا حصہ تھے۔ دس سال پہلے نامور کرکٹ رائٹر کرسٹو فر مارٹین کی کتاب 'دی ٹاپ 100کرکٹر آف آل ٹائم شائع ہوئی تو اس میں  عبدالقادر کا نام شامل تھا۔
عبدالقادر کو ہم بلاخوف تردید عہد ساز کھلاڑی کہہ سکتے ہیں، کسی بھی کھیل کی تاریخ کتنی  بھی  پرانی ہو، اس میں عہد ساز اور رجحان ساز کھلاڑی کم ہی ہوتے ہیں۔

سپنر بولنگ کے مسیحا عبدالقادر1984  کےمیچ میں بولنگ کرتے ہوئے

اب عبدالقادر کے حالات زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں:وہ 15 ستمبر 1955 کو لاہور میں ایک پٹھان گھرانے میں پیدا ہوئے۔والد سید قدیم ، حافظ قرآن اور امام مسجد تھے۔عبدالقادر کا بچپن غربت میں گزرا۔کنبہ ڈیڑھ دومرلے کے مکان میں آباد تھا۔صبح کھانے کو ملتا تو شام کی خبر نہ ہوتی، شام کو پیٹ بھرتے تو صبح کی فکر لاگو ہوجاتی۔والد کو کرکٹ سے نفرت تھی۔بیٹے کی سرگرمیاں انھیں ایک آنکھ نہ بھاتیں۔والد کا خوف اس درجہ لاحق ہوتا کہ ٹراؤزر کے اوپر شلوار پہن کر کھیلنے جاتے۔میدان میں پہنچ کر اصل روپ میں ظاہر ہوتے۔گھر واپسی کے لیے دوبارہ پرانے قالب میں ڈھلتے۔یہ مخاصمانہ فضا آتش شوق کو سرد تو کیا کرتی الٹا اسے اور بھی بھڑکانے کا موجب بنی۔
ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ بچپن میں پاکستان ٹیم کا میچ دیکھنے کا انھیں بے حد اشتیاق تھا۔ اسٹیڈیم جانے کے لیے کرایہ نہ ہوتا اس لیے پیدل سفر کرتے ۔ٹکٹ خریدنے کی استطاعت تھی نہیں، اس لیے کالج کے لڑکوں کے ساتھ دھکم پیل کرتے اسٹیڈیم میں گھس جاتے۔پھر چشم فلک نے وہ وقت بھی دیکھا کہ قذافی سٹیڈیم کا انکلوژر ان کے نام سے منسوب ہوا۔

19 اپریل 1978 میں عبدالقادر کی نیٹ پریکٹس  کے دوران یاد گار تصویر (فائل فوٹو)

عبدالقادر کے کردار کا بڑا پن تھا کہ انھوں نے اپنے خاندان کی ماضی کی عسرت کبھی چھپائی نہیں۔ کڑے وقت میں جس نے ان کا ساتھ دیا اسے ہمیشہ یاد رکھا۔ ایک بڑے قومی اخبار کو انھوں نے انٹرویو میں بتایا تھا کہ جس شخص نے انھیں پہلی دفعہ لنڈا بازار سے ٹراؤزر لے کر دیا ، وہ ملنے آئے تو وہ احتراماً کھڑے ہوجاتے ہیں۔
کرکٹ ان کے رگ وپے میں یوں سمائی کہ رات سوتے میں بھی گیند ان کے پہلو میں رہتی۔گلی محلے میں کھیل سے دھاک بٹھانے کے بعد ان کے جوہر کلب کرکٹ میں کھلے۔دھرمپورہ جم خانہ کی طرف سے عمدہ کارکردگی نے جذبوں کو مہمیز دی۔میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج کی ٹیم میں شامل ہوئے اور اپنی کارکردگی سے سب کو حیران کردیا۔ایل سی سی اے نے برسوں انھیں ٹیم میں شامل نہ کیا لیکن پھر قسمت نے وہ دن دکھایا کہ  اس ٹیم کی انھوں نے قیادت کی۔حبیب بینک نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں موقع دیا تو اس کی امیدوں پر بھی پورا اترے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کی کامیابی میں بارہا کلیدی کردار ادا کیا۔ انگلینڈ کے خلاف 56 رنز دے کر 9 کھلاڑی آؤٹ کیے جو ایک ٹیسٹ اننگز میں کسی پاکستانی بولر کی بہترین پرفارمنس ہے۔پاکستان کے خلاف فیصل آباد میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم 53 کے سکور پر آؤٹ ہوئی تو چھ کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھانے والے بولر عبدالقادر تھے۔

 1987 کے ورلڈ کپ میں ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی قرارپائے

ون ڈے کرکٹ میں ان کے کرئیر کا نقطہ عروج 1987 کا ورلڈ کپ تھا،جس میں انھیں ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔اس ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کورٹنی والش کے آخری اوور میں چھکے کی مدد سے 14 رنز بناکر ٹیم کو جتوایا اور اس کے سیمی فائنل میں پہنچنے کی راہ ہموار کی۔
لیگ سپن بولنگ کا فن کیا ہے اس کے بارے میں انھوں نے راقم کو ایک انٹرویو میں بتایا:
لیگ سپن بولنگ ایسے ہی ہے جیسے مچھلی کو چال سے پکڑنا۔ یہ چکر بازی اور ہیرا پھیری ہوتی ہے۔ یہ ایک مشکل آرٹ ہے جس پر عبور خاصا کٹھن مرحلہ ہے۔ اچھے لیگ سپنر کو جرات مند ہونا چاہیے۔ لائن اینڈ لینتھ پر اسے کنٹرول ہونا چاہیے۔ کئی لیگ سپنر ایسے آئے جن کی گیند میں ٹرن بھی تھا اور باؤنس بھی لیکن کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ عرصہ کامیاب نہ ہوسکے۔ لیگ سپنر کو مسلسل سوچ بچار کرتے رہنا چاہیے، شین وارن کا ٹیلنٹ اور محنت اپنی جگہ لیکن وہ بہت غورو فکر کرنے والا کرکٹر ہے۔

شیئر: