فواد حسن فواد کا شمار سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بااعتماد افسروں میں ہوتا تھا۔ فوٹو:سوشل میڈیا
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری اور ملک کے ایک انتہائی طاقتور سمجھے جانے والے بیوروکریٹ فواد حسن فواد آج 14 جنوری 2020 کو ریٹائرڈ ہو رہے ہیں لیکن اپنی زندگی کا یہ سنگ میل وہ جیل میں دیکھیں گے۔
فواد حسن فواد پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے 22 ویں گریڈ کے افسر ہیں اور وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری ہونے کے ناطے اس طاقتور عہدے پر وہ ڈیفیکٹو پرائم منسٹر بھی کہلاتے تھے۔
فواد حسن فواد نومبر 2015 سے جون 2018 تک وزیر اعظم آفس میں پرنسپل سیکریٹری کے عہدے پر براجمان رہے۔ انہوں نے دو وزرائے اعظم کے ساتھ بطور پرنسپل سیکرٹری کام کیا، جن میں نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی شامل ہیں۔
فواد حسن فواد 14 جنوری 1960 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور تیس سال افسر شاہی میں گزارنے کے بعد وہ اپنی سالگرہ کے دن ہی جیل میں ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہونے کے بعد انہیں ڈائریکٹر جنرل سول سروسز اکیڈمی آف پاکستان لگا دیا گیا۔ فواد حسن فواد سب سے پہلے شہ سرخیوں میں تب آئے جب وہ پنجاب میں سیکرٹری ہیلتھ کے عہدے پر تھے اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بااعتماد افسروں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں انہیں شریف فیملی کے دونوں بڑوں کے ساتھ کام کا موقع ملا۔
فواد حسن فواد کیوں جیل میں ہیں؟
جیسے ہی مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہوئی تو فواد حسن فواد کا پرنسپل سیکرٹری کا عہدہ بھی ختم ہو گیا اور انہیں ڈی جی سول سروسز اکیڈیمی تعینات کر دیا گیا۔ اس دوران چھ جولائی 2018 کو قومی احتساب بیورو نے انہیں آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مقدمے میں گرفتار کر لیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک نجی کمپنی کا آشیانہ اقبال (سرکاری ہاوسنگ کالونی) کی تعمیر کا کنٹریکٹ منسوخ کروایا جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔ اسی گرفتاری کے دوران نیب نے ان پر ایک اور مقدمہ آمدن سے زائد اثاثوں کا بھی بنا دیا۔
فروری 2019 میں لاہور ہائی کورٹ نے آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مقدمے میں ان کی ضمانت منظور کر لی جبکہ آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں وہ ابھی جیل میں ہیں۔
فواد حسن فواد جو 17 ماہ سے جیل میں ہیں نے ایک مرتبہ پھر اپنی ضمانت کے لیےلاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
اپنی ضمانت کی درخواست میں انہوں نے کہا ہے ’میرے پاس اپنا ذاتی گھر تک نہیں ہے ان کی فیملی ابھی بھی سرکاری گھر میں رہ رہی ہے وہ جلد ریٹائرڈ ہو جائیں گے تو سرکاری گھر بھی وہ واپس کر دیں گے۔‘
ضمانت کی درخواست میں انہوں نے یہ موقف بھی اختیار کیا ہے کہ ’میں کسی جرم کی پاداش میں جیل میں نہیں ہوں بلکہ ریاستی مشینری کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنے پر مجھے سزا دی جا رہی ہے۔‘
عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی ہے۔ اور اس پر سماعت کی ریٹائرمنٹ کے ایک روز بعد 15 جنوری کو ہو گی۔