Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بغداد میں سو سال پرانا کافی ہاﺅس 

الشابندر قہوہ خانے کی عمارت کا افتتاح 1917 میں ہوا تھا (فوٹو: سی این این)
عراقی دارالحکومت بغداد کی تاریخی سڑک عرب دنیا کے مایہ ناز شاعر المتنبی سے موسوم ہے۔ قدیم طرز کی عمارت وہاں سے گزرنے والے ہر شخص کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔
سڑک سے گزرنے والا پیشہ ور فوٹو گرافر ہو تو وہ اس کی تصویر لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ 
سی این این عربک کے مطابق بحرینی فوٹو گرافر حسن النشیط نے بتایا ’بغداد میں متنبی اسٹریٹ سے گزر ہوا تو اسے چائے کے چمچوں کے بجنے اور ایک قدیم عمارت میں لوگوں کی گفتگو نے اپنی جانب متوجہ کرلیا۔
 معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ وہ تاریخی عمارت ہے جس کا افتتاح سو برس قبل 1917 میں ہوا تھا۔‘

بغداد کی تاریخی سڑک عرب دنیا کے مایہ ناز شاعر المتنبی سے موسوم ہے (فوٹو: سی این این)

النشیط نے جوکتابوں کے دلدادہ ہیں اور المتنبی سٹریٹ کتب فروشوں کے حوالے سے پورے علاقے میں اپنی شہرت رکھتی ہے۔ انہوں نے کتابیں خریدنے کا پروگرام بنایا لیکن ابھی یہ کام نہیں دینے پایا تھا کہ’ الشابندر ‘ قہوہ خانہ ان کی دلچسپی کا موضوع بن گیا۔
 حسن النشیط کا کہنا تھا ’عراق سمیت بیشتر عرب ممالک میں عوامی قہوہ خانے اپنی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔ الشابندر قہوہ خانے آنے والے مختلف ذوق، مزاج اور معیارکے لوگ ہیں۔ اس کے روشن دان دعوت نظارہ دیتے ہیں۔
بحرینی فوٹو گرافر نے الشابندر قہوہ خانے کے مالک محمد الخشالی سے دریافت کیا کہ اس تاریخی عمارت کی کہانی کیا ہے۔

موسیٰ الشابندر عمارت کے مالک تھے جو 1941 میں عراق کے وزیر خارجہ بھی بنے (فوٹو: سی این این)

الخشالی نے بتایا کہ اس عمارت کی تاریخ بغداد میں الشابندر کے نام سے قائم پہلے پریس سے جڑی ہوئی ہے۔ موسیٰ الشابندر اس کے مالک تھے۔ وہ 1941 میں عراق کے وزیر خارجہ بھی بنے۔
محمد سعید الجلبی نے 1917 میں الشابندر قہوہ خانہ قائم کیا۔ یہ اس زمانے میں نوری السعید اور عبدالکریم قاسم جیسے نامور سیاستدانوں کی بیٹھک ہوا کرتا تھا۔
یہ قہوہ خانہ سرکاری اداروں سے قریب واقع تھا۔ اس وجہ سے اعلیٰ عہدیدار اس کا رخ کرتے تھے۔
الشابندر قہوہ خانہ نہ صرف یہ کہ ممتاز سیاستدانوں کا مرکز رہا بلکہ عرب دنیا کے مختلف ادیب، شاعراور قلمکاروں کا ثقافتی مرکز بھی بنا رہا۔
مارچ 2007 قہوہ خانے کے لیے سانحہ کا سال ثابت ہوا۔ الشابندر قہوہ خانے کے قریب کار دھماکے سے قہوہ خانے کا بڑا حصہ اور آس پاس کی دکانیں متاثر ہوئیں۔

قدیم طرز کی عمارت گزرنے والے ہر شخص کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے (فوٹو: سی این این)

 کار دھماکے کے نتیجے میں 68افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ان میں قہوہ خانے کے مالک کے چار بیٹے اور پوتا شامل تھا۔
حکومت، تاجر اور گاہکوں کی فنڈنگ سے قہوہ خانہ دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ نئے قہوہ خانے کے دو نام ہوگئے۔ ایک تاریخی نام الشابندر اور نیا نام الشہداءقہوہ خانہ ہے۔
عصر حاضر میں بھی شعرا، قبائل کے سردار، وکلا، قلم کار اور عوام الناس بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔ قہوہ خانہ کا خارجی منظر نامہ آج بھی ویسا ہی جیسا 1917میں تھا۔
اس قہوہ خانے کے کئی روشندان ہیں جوالمتنبی سٹریٹ پر واقع کتب خانوں کی طرف کھلتے ہیں۔ اس کی دیواریں آج بھی ممتاز شخصیات کی تصاویر اور حسن کارکردگی کے سرٹیفکیٹ سے سجی ہوئی ہیں۔

شیئر: