چولستان کی سالانہ صحرائی جیپ ریلی کا ٹریک ریس شروع ہونے سے کئی دن پہلے ہی سجا دیا جاتا ہے۔ ریس کے دن قریب آتے ہیں تو صحرا میں میلا سا لگ جاتا ہے۔
قلعہ دراوڑ کے سائے میں جیپ ریلی میں شرکت کے لیے پاکستان بھر سے لوگ آئے ہوتے ہیں۔ یہ جیپ ریلی کے شوقین افراد اپنے ساتھ کئی کہانیاں بھی لاتے ہیں۔
کراچی کے پٹیل خاندان کو ہی لے لیجئے۔ ریس کے دوسرے روز سٹاک کیٹیگری میں ریس شروع ہونے سے پہلے ٹریک پر تشنیٰ پٹیل آئیں تو کمنٹریٹر سے لے کر انتظامیہ کا ہر شخص انہیں اچھی طرح پہچانتا تھا۔
تشنیٰ پٹیل سے جب پوچھا کہ وہ جیپ ریس سے متعلق اپنے شوق کو کیسے بیان کریں گی تو مسکرا کر بولیں ’کہیں آپ بھی ہمیں پاگل تو نہیں سمجھتے؟ ہمارے خاندان کا جیپ ریس سے متعلق جنون دیکھ کر لوگ ہمیں پاگل کہتے ہیں۔ ہم کراچی سے ہر سال اس جیپ ریلی میں شرکت کے لیے آتے ہیں۔ میں سنہ 2005 سے آ رہی ہوں جب سے اس ریلی کا آغاز ہوا تھا۔ تو یہ پندرواں سال ہے اور کوئی ایک سال بھی مس نہیں کیا۔‘
مزید پڑھیں
-
مراکش کار ریس، اٹلی کے ڈرائیور نے عالمی ریکارڈ بنا دیاNode ID: 324936
-
بیٹی کو دوبارہ کار ریس کی اجازت دونگاNode ID: 347891
-
’تیز ترین‘ خاتون کار ریسر حادثے میں ہلاکNode ID: 431206
تشنیٰ پٹیل نے بتایا کہ ان کے شوہر رونی پٹیل شادی سے پہلے ہی موٹر سپورٹس کے شوقین تھے اور شادی کے بعد دونوں میاں بیوی ہی اس کھیل میں شریک رہے۔ تشنیٰ جن کی عمر 45 سال ہے ان کو اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے چولستان کی صحرائی جیپ ریس میں سال 2013 میں حصہ لیا تھا۔ اس سے پہلے وہ 2005 سے اپنے شوہر کے ساتھ آ رہی تھیں لیکن باقاعدہ کھیل میں شریک نہیں ہوئی تھیں۔ تشنیٰ کے بعد اب کل چار خواتین ہیں جنہوں نے سال 2020 میں جیپ ریلی میں شرکت کی۔ اب ان چار خواتین کے لیے الگ سے کیٹیگری بنا دی گئی ہے۔
ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب کے لیے اس سال کی جیپ ریلی اس لیے بھی اہمیت کی حامل تھی کہ یہ ریلی کا پندرواں سال ہے اور اب قلعہ دراوڑ کے قریب ایک مستقل ریزارٹ کا افتتاح بھی کیا گیا۔ پٹیل فیملی کے لیے بھی یہ سال پہلے سے زیادہ اہم ہے۔
تشنیٰ پٹیل بتاتی ہیں ’یہ پہلا سال ہے کہ میں، میرا شوہر رونی پٹیل اور میرا بیٹا رادھان پٹیل تینوں ایک ساتھ ریس میں شریک ہو رہے ہیں۔ میرا شوہر اور بیٹا ’کو ڈرائیور‘ کے طور پر شریک ہیں جبکہ میں خواتین کیٹیگری میں خود ڈرائیور کے طور پر حصہ لے رہی ہوں۔ میرا بیٹا رادھان پٹیل صاحبزادہ سلطان کے کو ڈرائیور ہیں اور ہمیں فخر ہے کہ انہوں نے ہمارے بیٹے کو چنا۔‘
خواتین کیٹیگری کی ریس شروع ہونے لگی تو رونی پٹیل نے بیوی کی جیپ کی ونڈ سکرین صاف کی اور انہیں ٹپس دیتے ہوئے رخصت کیا۔
رونی پٹیل کو ٹریک پر دیکھ کر ہر کوئی ان کے ساتھ سیلفی بنانے کی خواہش کر رہا تھا۔ مقامی افراد ہوں یا ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے ریس کے شوقین افراد سبھی اس خاندان کو جانتے ہیں۔
خوش مزاج رونی پٹیل کہتے ہیں ’موٹر سپورٹس بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی دوسرا کھیل۔ اس میں سسپنس بھی ہے، تھرل بھی ہے اور ایڈونچر بھی، کئی طرح کی مہارت چاہیے ہوتی ہے سرپھرے صحرا کو سر کرنے کے لیے۔ اس کی دلچسپ بات یہ ہے کہ کھیل کے آخری لمحے تک آپ لڑتے ہیں کیونکہ نتائج کا آپ کو علم نہیں ہوتا۔‘
چولستان جیپ ریلی کا پری پیڈ ٹریک اب 500 کلو میٹر تک کر دیا گیا ہے۔ اور اس کو دو دنوں تک محیط کر دیا گیا ہے۔ ٹریک قلعہ دراوڑ سے شروع ہو کے بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان کے تینوں اضلاع سے گزرتا ہوا واپس پہنچتا ہے اور اس وقت یہ پاکستان کا سب سے بڑا ریسنگ ٹریک بن چکا ہے۔
خواتین سٹاک کیٹیگری کی ریس ختم ہوئی تو تشنیٰ پٹیل نے اس سال بھی میدان مار لیا اور ریس میں اول آئیں۔ پچھلے سال بھی ریس انہوں نے ہی جیتی تھی۔ صحرا میں لگے اپنے کیمپ میں پٹیل خاندان نے فتح کا جشن منایا اور اگلی صبح واپس روانگی کے لیے تیاری شروع کر دی۔ وہ اختتامی تقریب میں انعام اور ٹرافی لینے کے لیے نہیں رک رہے تھے۔
رونی پٹیل کا انعامی رقم سے متعلق بھی اپنا انداز ہے۔ کہتے ہیں ’آپ یقین جانیں ہمیں انعام اور ٹرافی میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ہم پاکستان کی ہر جیپ ریلی میں جاتے ہیں اور گھر میں اتنی ٹرافیاں ہو چکی ہیں کہ اب دلچسپی ختم ہو گئی ہے۔ ہاں کھیل میں دلچسپی پہلے سے بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ ہم چاہتے ہیں موٹر سپورٹس اور بھی آگے بڑھے اور اور لوگ اس میں دلچسپی دکھائیں اور نئے سے نئے کھلاڑی اس میں آئیں، ٹرافی جیتنے سے زیادہ اس بات پر خوشی ہوگی۔‘
رونی پٹیل نے بتایا کہ اگلے سال وہ خود بھی ڈرائیور کے طور پر حصہ لیں گے کیونکہ وہ اپنی ایک الگ سے جیپ تیار کروا رہے ہیں جو کہ اگلے سال کی ریس کے لیے موزوں ہوگی۔ تب تک ان کا بیٹا بھی اس کھیل میں مہارت حاصل کر لے گا اور الگ سے ڈرائیور کے طور پر بھی حصہ لے گا۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں