ریت کے اونچے نیچے ٹیلوں کے بیچ نیلے پانیوں سے بھری جھیلیں، ان پر پرندوں کی اڑانیں اور درختوں کے گڈ مڈ سلسلے، ریگزار کے اس ویرانے میں وہ حسین نظارہ پیش کرتے ہیں کہ دیکھنے والے کو خواب کا گماں ہونے لگتا ہے۔
یہ ریگستان اچھرو تھر کے نام سے پہچانا جاتا ہے جس کے معنی ہیں سفید ریگستان۔

مقامی لوگ اسے اچھیو تھر بھی کہتے ہیں جس کی سرحدیں عمرکوٹ سے شروع ہو کر پنجاب میں بابا فرید کے چولستان سے جا ملتی ہیں اور اراضی کے اعتبار سے یہ پاکستان کا سب سے وسیع صحرا مانا جاتا ہے۔
23 ہزار کلومیٹر پر پھیلے اس ریگستان میں سو کے قریب کھارے اور میٹھے پانی کی وسیع جھیلیں موجود جاتی ہیں۔ جن میں سے کچھ جھیلوں میں مچھلی کا شکار ہوتا ہے۔ سانگھڑ شہر کے قریب واقع چوٹیاریوں ڈیم انہی جھیلوں میں سے 60 جھیلوں کے ایک سلسلے کو آپس میں جوڑ کر بنایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
ملازمت کے پہلے روز کیا کرنا چاہیےNode ID: 455746
-
رکشہ ڈرائیور باپ کے سوشل میڈیا پر چرچےNode ID: 456261
-
پاکستان میں چرس کی فیکٹری لگے گی؟Node ID: 456841
صحراٸے اچھرو تھر اپنی ریت کی سفیدی اور دلدلوں کے اعتبار سے سندھ کے تھر پارکر ریجن سے منفرد مانا جاتا ہے۔ اس علاقے میں انسانی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے مگر موجود آبادی کے گذر بسر کا واحد ذریعہ نمک کی جھیلوں میں کٹھن مزدوری اور مویشی پالنا ہے۔ بارشیں ہوتی ہیں تو قدرتی طور پر اگنے والی گھاس مویشیوں کے چارے کے کام آتی ہے اور انسانوں اور جانوروں کے پینے کے لیے بارش کا پانی سیمنٹ سے بنے ٹینکوں میں جمع کیا جاتا ہے جو سال بھر استعمال ہوتا رہتا ہے۔

ہتہونگو نامی شہر جس کی آبادی تقریباً دس ہزار ہے اچھڑو کی طرف گیٹ وے کا درجہ رکھتا ہے، یہاں سے کچھ فاصلے پر نمک کی سات جھیلیں موجود ہیں۔ ان جھیلوں سے روزانہ ہزاروں ٹن نمک نکالا جاتا ہے۔ یہ سفید پھیلی ہوٸی جھیلیں دور سے یوں دکھاٸی دیتی ہیں جیسے اس ویرانے کے بیچ برف پھیلی ہوئی ہو اور جھیلوں کے قریب ہی اونچے ریتلے ٹیلوں پر نمک نکالنے والے مزدوروں کی جھونپڑیاں دکھاٸی دیتی ہیں جو نمک میں لتھڑی ایک کسیلی زندگی جی رہے ہوتے ہیں۔
یہ وہ ریگستان ہے جہاں دکھ کے ہزار مرحلوں کے بیچ زندگی جینے کے بہانے ڈھونڈھ لیتی ہے اور یہ لوگ ہنستے گاتے، اپنی روایات سے جڑے ہوئے چلے آ رہے ہیں۔ فقیرانہ راگ یہاں کی موسیقی کی خاص پہچان ہے جس میں یہ لوگ اپنے مرشد کی قصیدہ گوئی کے ساتھ لوک کرداروں کے درد اور خوشیاں بیان کرتے رہتے ہیں۔

اچھرو تھر میں پانی کے بہت ہی گہرے کنویں پاٸے جاتے ہیں جو دو دو تین تین سو فٹ گہرے ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کے ان سے دو تین لوگ مل کر پانی کا برتن لمبی رسیوں سے کھینچ کر نکالتے ہیں اور اس سلسلے میں اونٹ اور گدھے کی مدد بھی لی جاتی ہے۔
اچھرو تھر کی خاص پہچان یہاں موجود ریت کی دلدلوں کو مانا جاتا ہے، جن سے کسی اجنبی کا گزر ناممکن ہے۔ ریت کی اس دلدل کے حوالے سے مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ یہ دلدل راتوں میں چلتی ہیں یعنی ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ اپنی شکل بدلتی رہتی ہیں اور انجان مسافر ان اکثر ان جانے میں ان کے بیچ پہنچ کر اپنی جان کھو دیتے ہیں۔ انگریز سرکار سے جنگ کے دوران حر گوریلوں کے لیے یہ دلدلیں کسی خندق یا پناہ کی دیواروں کا درجہ رکھتی تھیں۔ نامور جنگجو شیخیو راجڑ نے انگریز راج سے انہی سفید ٹیلوں کے بیچ میدان سجایا تھا۔

اچھرو تھر کی ان دلدلوں کے بیچ پور چنڈ جھیل ست رنگے پانیوں کا عجب نظارہ پیش کرتی ہے۔ لوگ یہاں مرادیں اور منتیں ماننے کے لیے آتے ہیں، اس جھیل کو طوفان نوح سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔
اسی دلدل کے بیچ نخلستان بھی ملتے ہیں جہاں کھجور اور بیری کے درخت پاٸے جاتے ہیں جنہیں کوچھر کہتے ہیں۔ یہاں ہاتھ سے زمین کھودنے پر میٹھا پانی نکل آتا ہے۔

صحراٸے اچھڑو تھر ہاتھ کے ہنر کے حوالے سے بھی اپنی ایک الگ ہی پہچان رکھتا ہے۔ مقامی زبان میں یہاں گاؤں، گوٹھوں کو تڑ کہا جاتا ہے اور تڑ پانی کے کنویں کو بھی کہتے ہیں۔ ہر گاٶں کی عورتیں رلی، گج، کنجری، رنگبرنگی، جھمکوں والے پراندے، موڑ یعنی دولہے کے سر پر سجائے جانے والے سہرے کے علاوہ دیگر ملبوساتی سامان بنانے کا کام کرتی ہیں۔ کھوہ گپنی نامی ایک گاؤں میں چرخے پر بھیڑ کی اون سے دھاگہ تیار ہوتا ہے جس سے کھڈیوں میں بہت ہی خوب صورت شالیں اور کھتھے (شال کی ایک روایتی قسم) تیار ہوتی ہیں۔

ثقافتی اور تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ علاقہ ان تمام چیزوں سے مالا مال ہے جو کسی بھی علاقے کو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا سکیں مگر غربت اور پسماندگی فن اور ثقافت کو کھا جاتی ہے۔
ایک تو یہ علاقہ سیاحتی لحاظ سے مشہور نہ ہو سکا اور دوسرا چونکہ یہاں کے لوگ زیادہ تر دستکاری کے کام سے منسلک ہیں جن کی آج کے مشینی دور میں کچھ زیادہ وقعت نہیں، اس لیے بازاروں میں مناسب قیمت نہیں مل پاتی۔ یوں اس ریگستان کو بھوک، پیاس اور افلاس نے اپنے شکنجے میں کس کر قریب مرگ پہنچا دیا ہے۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں