'پکوڑے پکوڑے ہوتے ہیں جس قسم کے ہوں'
سال بھر استعمال ہونے والے پکوڑے رمضان میں خصوصی توجہ پاتے ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
کھانے پینے کے شوقین افراد اپنے ذوق کی تسکین کا موقع ڈھونڈ ہی لیتے ہیں لیکن کچھ مواقع ایسے ہوتے ہیں جنہیں خوش خوراکی نہ کرنے والے بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
رمضان میں افطار بھی ایسا ہی ایک موقع ہوتا ہے جب گھر میں موجود افراد ہوں یا گھر سے دور رہنے والے، ہر ایک پوری کوشش کرتا ہے کہ وہ بہتر سے بہتر ذائقے کی لذت پا سکے۔
سوشل میڈیا صارفین کے ہاتھ پکوڑوں کی مختلف اقسام کا معاملہ لگا تو انہوں نے افطار کے دستر خوان کا تقریباً لازم جزو سمجھے جانے والی اس ڈش کی رینکنگ مرتب کرنا شروع کر دی۔
ٹوئٹر صارف حمنہ زبیر نے اپنی ایک ٹویٹ میں ذائقے کے اعتبار سے پکوڑوں کی درجہ بندی کرتے ہوئے اپنی ترجیح بیان کی اور ساتھ ہی دوسروں کو اختلاف کی اجازت دیتے ہوئے ان کی پسند پوچھی تو جواب میں پکوڑوں میں ڈالے جانے کے لیے گویا سبزیوں کا مقابلہ سا شروع ہو گیا۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد گفتگو کا حصہ بنے تو ہر ایک نے اپنی مرضی کی درجہ بندی تجویز کی۔
ٹوئٹر صارف ڈاکٹر زاہد پرویز پالک کے پکوڑوں کو دیے گئے رینک سے تو متفق رہے البتہ سبز مرچوں کے پکوڑے ان کے مطابق بہتر رینکنگ کے مستحق قرار پائے۔
صرف کھانے ہی نہیں پکانے سے متعلق مہارت بھی گفتگو کا حصہ بننے والوں کی ٹائم لائنز پر نمایاں رہی۔
خود کو سرکاری ملازم کے طور پر متعارف کرانے والے نصر عباسی نے اپنے بنائے ہوئے پکوڑوں کی تصویر شیئر کی تو ساتھ ہی ان کی اقسام پر بھی روشنی ڈالی۔
سحر طارق اپنی درجہ بندی کے ساتھ سامنے آئیں، البتہ انہوں نے دیگر افراد کے برعکس پہلا، دوسرا اور تیسرا نمبر اپنے پسندیدہ پکوڑوں کے لیے بینگن کو دیا اور پھر آلو کی گنجائش نکالی۔
پکوڑوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک میں دانستہ یا غیر دانستہ برتی جانے والی ناانصافی کی جھلک بھی گفتگو میں نمایاں رہی۔
کسی نے آلو کو ’انڈر ریٹڈ پکوڑا‘ قرار دے کر اسے ٹاپ تھری رینکنگ میں رکھنے کی خواہش ظاہر کی تو کوئی پکوڑوں کی کسی دوسری قسم کا حامی دکھائی دیا۔
ایک صارف رمل محی الدین نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’گوبھی والے پکوڑوں کو مجرمانہ حد تک نظر انداز کیا جاتا ہے۔‘
کچھ صارف بحیثیت مجموعی رینکنگ سے متفق دکھائی دیے البتہ انہوں نے مختلف قسموں کو ملا کر نئی قسم کے پکوڑے ضرور تجویز کیے۔
تحریم عظیم نے بھی فیوژن کی تجویز دیتے ہوئے آلو، پیاز اور پالک کو سبز مرچوں کے ساتھ ملا کر الگ قسم کے پکوڑوں کی تجویز پیش کی۔
عائشہ سمیع خان بھی پیاز کے ساتھ ٹماٹر کو ملا کر پکوڑے بنانے کی تجویز دے کر ان کے خوش ذائقہ ہونے کی تعریف کرتی دکھائی دیں۔ لگے ہاتھوں انہوں نے میکرونیز کے ساتھ مکس پکوڑوں کا مشورہ بھی دے ڈالا۔
صارفین نے پکوڑوں کی درجہ بندی کی ابتدا کرنے والی حمنہ زبیر سے دیگر قسموں سے متعلق ان کا تجربہ جاننے کی کوشش بھی کی۔
ایک صارف فاریہ نے لکھا کہ ’کیا آپ نے کبھی مکئی کے ساتھ پکوڑے ٹرائی کیے ہیں؟‘
حمزہ نے گفتگو کے دوران ایک نسبتاً نئے پہلو کی نشاندہی کی اور لکھا کہ 'پکوڑا جو بھی ہو ساتھ چٹنی اور کیچپ میسر ہونا چاہیے۔'
کچھ صارف ایسے بھی تھے جنہیں پکوڑوں کی درجہ بندی کی یہ جسارت ذرا نہیں بھائی تو وہ اس کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکے۔
شہاب نفیس نے لکھا کہ ’پکوڑے تو پکوڑے ہوتے ہیں۔ جنس، رنگ، ذات اور قبیلے کے نام پر ان سے امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔‘
کھانے پینے کا تذکرہ ہوا تو ایسا نہیں تھا کہ ٹائم لائنز پر صرف پکوڑوں ہی کا راج رہا۔ گرمی کا موسم ہو اور لسی کا ذکر نہ ہو کے مصداق سوشل میڈیا صارفین لسی کی اقسام اور اپنی پسند کو بھی زیر بحث لائے۔
پاکستان سمیت متعدد ملکوں میں لسی گرمی بھگانے اور پکوڑے افطار کے دستر خوان کا لازمی حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ اچھے ذائقوں کے شائقین مختلف سبزیوں یا اجناس کے پکوڑوں کے ذریعے اپنی خوش خوراکی کے جذبے کی تسکین کا سامان کرتے ہیں۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں