پاکستان کے زیرانتظام گلگت بلتستان میں گلگت ڈویژن کی انتظامیہ قرنطینہ اور آئسولیشن مراکز میں کورونا کے مشتبہ اور تصدیق شدہ مریضوں کے دفاعی نظام کو بہتر بنانے کے لیے انھیں روزانہ کی بنیاد پر ڈرائی فروٹ، گائے کے دودھ سے حاصل ہونے والا تازہ مکھن اور دہی فراہم کر رہی ہے۔
قرنطینہ مراکز میں موجود کورونا مریض لینڈ لائن، واٹس ایپ اور موبائل نمبر پر کال کرکے اپنی فرمائش بتا سکتے ہیں اور انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ان کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی فرمائشوں اور ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
یوٹیوب پر کون سے پاکستانی شیفس ٹاپ؟Node ID: 476256
-
خلیجی اور دیگر ممالک سے کتنے پاکستانی واپس آنا چاہتے ہیں؟Node ID: 476591
-
زچہ بچہ وارڈز بند، اگلی نسل بھی کورونا کی زد میںNode ID: 476911
کمشنر گلگت بلتستان ڈویژن عثمان احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم نے ماہرین غذائیت سے مشورے کے بعد کورونا کے تصدیق شدہ اور مشتبہ مریضوں کی خوراک بہتر بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے تحت ہر کمرے میں ڈرائی فروٹ کے پیکٹس بھیجے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک مقامی ڈیری فارم سے بات کرکے تازہ مکھن کا انتظام کیا گیا اور تمام افراد کو ایک مخصوص مقدار میں تازہ مکھن دیا جاتا ہے۔ رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی گائے کے دودھ کی دہی بھی فراہم کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’اس سے نہ صرف یہ کہ ریکوری ریٹ بہت بہتر ہوا ہے بلکہ لوگوں کا ردعمل بھی بہت اچھا آیا ہے۔ عموماً سرکار کے کاموں کی تعریف کم ہی کی جاتی ہے لیکن یہاں سے صحت یاب ہو کر جانے والے بہت خوش جا رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ 'ابتدا میں جب ہم ان مریضوں کو تفتان سے لے کر آئے تو ہمیں احساس ہوا کہ قرنطینہ مراکز میں طبی عملہ بھی ان کے قریب جانے سے ڈرتا تھا۔ ہوٹل کے بیرے ان کے پیغامات انتظامیہ تک نہیں پہنچاتے تھے۔'
'ہم نے فیصلہ کیا کہ ان افراد اور انتظامیہ کے درمیان رابطہ ہونا چاہیے۔ جس کے لیے کمشنر آفس میں ویلفیئر اینڈ کمپلینٹ سینٹر کھولا گیا جس میں لینڈ لائن، واٹس ایپ اور موبائل نمبر رکھے۔ قرنطینہ اور آئسولیشن مراکز کے ہر کمرے میں موجود افراد کو فرداً فرداً خیر مقدمی خطوط لکھ کر ان کا ویلفیئر اینڈ کمپلینٹ سینٹر سے رابطہ کروا دیا۔‘

کمشنر کے مطابق 'مریضوں کی جانب سے کتابوں کی فرمائش آئی تو مختلف موضوعات پر ایک سو سے زائد کتابوں کی فہرست بنی جو ان کو فراہم کی گئیں۔ نئے صابن، تولیے، ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ فراہم کیے گئے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے گھر کے کفیل ہیں اور قرنطینہ میں ہونے کی وجہ سے گھروں کا نظام متاثر ہو رہا ہے تو فہرست بنا کر رات کے اندھیرے میں ان کے گھروں تک راشن بھی پہنچایا گیا۔‘
قرنطینہ مراکز میں رہنے والے افراد ایران سے تفتان اور پھر وہاں سے سفر کرکے گلگت پہنچے تھے۔ تفتان سے گلگت پہنچنے اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے مناسب دیکھ بھال کے بعد وہ اپنی تلخ یادوں کو بھلانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

نگر کے قرنطینہ مرکز میں رہنے والے ہنزہ کے رہائشی محمد حنیف اور ان کی اہلیہ رحیمہ خاتون نے بتایا کہ ’تفتان سے جعفر آباد اور پھر آگے کا سفر ایک ڈراؤنا خواب تھا لیکن یہاں جس انداز سے ہمارا خیال رکھا گیا ہم اس سے نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘
محمد حنیف نے کہا کہ 'قرنطینہ مرکز میں گھر جیسا کھانا، پینا اور ماحول ملا ہے۔ ڈرائی فروٹ تو مارکیٹ سے خریدا جا سکتا ہے لیکن کیسے ممکن ہوتا ہے کہ سینکڑوں لوگوں کو دودھ دہی فراہم کیا جائے۔ انتظامیہ نے اگر پہلے کچھ غلطیاں کی بھی ہوں گی تو ان کو ایسے سدھارا ہے کہ اب تعریف ہی بنتی ہے۔‘
رحیمہ خاتون کا کہنا ہے کہ 'جعفر آباد قرنطینہ میں جو کچھ تھا وہ کسی ظلم سے کم نہیں تھا لیکن ہماری انتظامیہ نے ہمیں کھانا پینا، بجلی پانی سب کچھ دیا۔ اس کے لیے ہم ان کو سلام پیش کرتے ہیں۔'
