پاکستان کے چیف جسٹس نے ملک میں قرنطینہ سینٹرز کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک بندہ قرنطینہ سینٹر پہنچ گیا تو وہ پیسے دیے بغیر وہاں سے نکل نہیں سکتا۔
جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ 'شاپنگ مالز کھولنے کا الزام عدالت پر نہ لگائیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہفتہ اور اتوار کو شاپنگ مالز کھولنے کا حکم صرف عید تک کے لیے دیا۔'
منگل کو سپریم کورٹ میں کورونا وائرس ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی۔
مزید پڑھیں
-
سندھ میں بھی مارکیٹیں اور دکانیں کھولنے کی اجازتNode ID: 477911
-
شاپنگ مالز میں فنگس کی خبروں میں کتنی صداقت؟Node ID: 478891
-
شاپنگ مالز اور مارکیٹیں کھل گئیں مگر اب بھی کیا کچھ بند ہے؟Node ID: 479916
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ کورونا سے متعلق اخراجات پر وضاحت کے لیے چیئرمین این ڈی ایم اے عدالت میں موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'ہم نے اخراجات کا نہیں پوچھنا، ہماری تشویش عوام کو دی جانے والی سروسز کے معیار پر ہے۔'
چیف جسٹس نے کہا کہ کورونا کے مشتبہ مریض کا سرکاری لیب سے ٹیسٹ مثبت اور پرائیویٹ سے منفی آتا ہے۔ 'سپریم کورٹ لاہور رجسٹری ملازمین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ کورونا کے مریض کو دنیا جہاں کی ادویات لگا دی جاتی ہیں۔ لاہور میں ایک شخص رو رہا تھا کہ اس کی بیوی کو کورونا نہیں لیکن ڈاکٹرز چھوڑ نہیں رہے تھے۔'
چیف جسٹس نے کہا کہ 'قرنطینہ سینٹرز کے مشتبہ مریض ویڈیوز میں تارکین وطن کو کہہ رہے ہیں کہ باہر مر جائیں مگر پاکستان نہ آئیں۔ این ڈی ایم اے سارا سامان چین سے منگوا رہا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'ہماری معیشت کا شمار صومالیہ، یمن اور افغانستان کے ساتھ ہوتا ہے۔ پاکستان کو ہر چیز میں خودمختار ہونا ہوگا، سٹیل مل چل پڑے تو جہاز اور ٹینک بھی یہاں بن سکتے ہیں۔ سٹیل ملز کو سیاسی وجوہات کی بنا پر چلنے نہیں دیا جاتا۔'
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی ریمارکس کے بعد عوام کورونا کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت اس بات سے آگاہ ہے کہ کورونا ملک میں موجود ہے۔ لوگ اس سے بڑی تعداد میں متاثر ہو رہے ہیں۔ شاپنگ سینٹر ہفتہ اور اتوار کو کھولنے کا حکم عید کے تناظر میں تھا۔ عید کے بعد صورت حال کا جائزہ لیں گے۔

اٹارنی جنرل نے موجودہ حالات بتاتے ہوئے کورونا وائرس کے حوالے سے جون کے مہینے کو انتہائی خطرناک قرار دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 'ملک میں کمپنیاں اور ادارے بند ہو رہے ہیں ہم صومالیہ کی طرف جا رہے ہیں، لیکن بادشاہوں کی طرح رہ رہے ہیں۔'
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے لاک ڈاؤن کے مؤثر ہونے سے متعلق بتایا تو چیف جسٹس نے سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ 'عدالت نے سندھ حکومت کو کچھ نہیں کہا، انسپکٹر پیسے لے کر کاروبار کھولنے کی اجازت دے رہے ہیں۔'
'سندھ حکومت نے سب رجسٹرار آفس کھول دیے، کرپشن میٹنگز سب رجسٹرار آفس میں ہوتی ہیں۔ سندھ حکومت کے فیصلوں میں بڑا تضاد ہے۔'
