غیر ملکی ڈاکٹرز کا فرنٹ لائن محاذ پر ذمہ داریاں جاری رکھنے کا عزم
غیر ملکی ڈاکٹرز کا فرنٹ لائن محاذ پر ذمہ داریاں جاری رکھنے کا عزم
بدھ 10 جون 2020 13:40
ڈاکٹرز جان خطرے میں ڈال کر مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)
سعودی عرب کے تمام علاقوں میں کورونا وائرس کے خلاف جنگ کے محاذ پر صحت کے شعبے میں مقامی شہریوں کے ساتھ غیر ملکی عملہ بھی کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ہے۔
عرب نیوز کی سروے رپورٹ کے مطابق معروف غیر ملکی ڈاکٹر اور دیگر کارکنان تمام شہروں میں فرنٹ لائن پر بہادری سے ان کا ساتھ دے رہے ہیں اور اس قاتل وائرس کو شکست دینے کے لیے انتہائی پرعزم ہیں۔
پاکستانی ڈاکٹر منصور میمن کے مطابق دوسروں کی زندگی کی حفاظت کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنا ہمارا عہد ہے(فوٹو: اردونیوز)
برطانیہ کے رائل کالج آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے رکن ڈاکٹر شیخ عبداللہ ان دنوں ریاض میں وزارت نیشنل گارڈز کے صحت امور کو دیکھ رہے ہیں انہوں نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بچوں کی ایمرجنسی میں پہلی صف میں کام کر رہا ہوں اس سے قطع نظر کہ آنے والا کورونا وائرس میں مبتلا ہے یا نہیں مجھے ہمیشہ حفاظتی لباس میں رہنا ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ عالمی وبائی مرض ہماری آئندہ نسل کے لیے انتہائی سنگین بحران کی علامت ہے۔
ہم یہاں صحت سے متعلق تمام حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے ہیں جیسا کہ آنے والے ہر مریض کا درجہ حرارت دیکھنا اور ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا۔
ڈاکٹر شیخ عبداللہ کا کہنا ہے کہ وائرس کاخوف بے چینی اور نفسیاتی پریشانی کی علامت ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
انہوں نے مزید کہا کہ یہاں دیکھ بھال کرنے والا دیگر عملہ بھی میری طرح اس لڑائی کے محاذ پر ہے، انہیں تناؤ کا سامنا رہتا ہے کیونکہ وائرس کا خوف بے چینی اور نفسیاتی پریشانی کی علامات کے ساتھ ساتھ ، غیر یقینی صورتحال اور زندگی کو خطرہ لاحق ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔
ڈاکٹر عبد اللہ نے مزید کہا کہ شعبہ حادثات میں کام کرنے والوں کو اور بڑے چیلنج کا سامنا ہے کہ کورونا وائرس کے خوف کے تحت گھر کے دیگر افراد بھی ہر وقت عجیب کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں۔
ڈاکٹرز اور ان کے گھر کے دیگر افراد بھی ہر وقت عجیب کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں(فوٹو: عرب نیوز)
انہوں نے مزید بتایا کہ زیادہ دیر تک ماسک لگانے سے سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے ساتھ بیت الخلا اور پانی تک محدود رسائی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ رہتی ہے۔ جب میں ڈیوٹی کے بعد گھر جاتا ہوں تو بیوی بچوں کو ملنے سے قبل انجانے خوف کے ساتھ تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹرعبد اللہ نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیشہ کی طرح واپسی پر چھوٹی بیٹی گلے ملنے کے لیے میری طرف لپکتی ہے، میں اسے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتا ہوںجب تک ہاتھوں کو صابن سے دھونے اور نہانے جیسی احتیاطی تدابیر اختیار کر کے محفوظ نہ ہو جاؤں۔
میری اہلیہ کو حالات کے مطابق بیٹی کو یہ سمجھانے میں کئی دن لگے کہ انتہائی خطرناک وائرس سے بچاؤ کے لیے ہمیں احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا پڑ رہا ہے۔
ڈاکٹر عبداللہ کا کہنا ہے کہ خطرناک وائرس سے بچاؤ کے لیے ہمیں احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ضروری ہے(فوٹو عرب نیوز)
ڈاکٹر عبد اللہ نے مزید بتایا کہ انہیں مشرق وسطی میں سنڈروم (ایم ای آر ایس ) جیسے سانس کی وبا میں مبتلا مریضوں کا علاج کرنے کا تجربہ ہے لیکن ایک عرصے سے کورونا وائرس جیسی متعدی بیماری سے نمٹنا پریشانی کا احساس پہلے سے کہیں زیادہ دلا رہا ہے۔
ان سب کے باوجود مجھے اپنے بیمار ہونے کی فکر نہیں۔ مریضوں کی صحت یابی کے لیے فرنٹ لائن محاذ پر میری ذمہ داریاں اس وائرس کے خاتمے تک جاری رہیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ بحیثیت ڈاکٹر آپ کو کسی نہ کسی طرح ناقابل تسخیر رہنے کا گمان رہتا ہے۔
ڈاکٹروں کو کورونا وائرس کے باعث ہر وقت حفاظتی لباس میں رہنا ہوتا ہے (فوٹو ٹوئٹر)
جدہ کے ہسپتال میں پاکستانی ڈاکٹر منصور میمن نے عرب نیوز کو بتایا کہ ہمارا یہ عہد ہے کہ دوسروں کی زندگی کی حفاظت کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالیں۔
کام کے وقت صحت کی دیکھ بھال کرنے والوں کو دی گئی ہدایات یا مقامی پروٹوکول کے ذریعہ جاری کردہ صحت مشوروں پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ کورونا وائرس کے بحران کے دوران کام کرنا ایک مختلف تجربہ ہے جس کے لیے جسمانی تندرستی اہم ہے۔
ڈاکٹر منصور میمن نے کہا کہ ہم ڈیوٹی کے بعد گھر لوٹتے ہیں تو ذاتی حفظان صحت کے اقدامات پر عمل کرتے ہیں جیسے جوتے اور دیگر سامان گھر سے باہر رکھنا، استعمال شدہ کپڑوں کو محفوظ جگہ پر اتارنا، گرم پانی سے دھونا اور تمام حفاظتی اقدامات پر عمل کرنا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’شعبہ صحت سے منسلک ہونے کی وجہ سے کورونا وائرس سے بچاؤ کے بنیادی اصولووں پر عمل کرتا ہوں جن میں چہرے کا حفاظتی ماسک، دستانے اور مجموعی طور پر حفظان صحت کو یقینی بنانا اس کے ساتھ ساتھ مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیےغذائیت سے بھرپور خوراک کا استعمال۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے شعبہ صحت سے متعلق تمام کارکن دوسروں کی حفاظت کے لیے ہر قسم کی پرواہ کیے بغیر اپنی جان کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘شعبہ صحت کے کارکن اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ یہ تکلیف دہ لمحات عام زندگی سے بالکل مختلف ہیں، انہیں اپنی پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی میں غیر معمولی تجربات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، گھریلو زندگی پر اس کے اثرات واضح ہیں اور دیگر چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔‘
ریاض میں کام کرنے والی سری لنکن ڈاکٹر کفایہ افتخار نے سروے میں بتایا ’ہمیں اور دیگر صحت کارکنوں کو اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے چہرے پر لگاتار ماسک لگانا انتہائی مشکل عمل ہے جو بے چین کر دیتا ہے اور اسی حالت میں گھنٹوں گزارنا پڑتے ہیں۔‘
اکثرایسی حالت میں سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے اور ڈیوٹی کے بعد جب گھر جاتے ہیں تو اپنے آپ کو اہل خانہ سے الگ تھلگ رکھتے ہیں تاکہ کوئی انفیکشن نہ پھیل سکے۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ غیر ضروری طور پر گھر سے باہر جانے سے گریز کرنا ہوگا (فوٹو: عرب نیوز)
ڈاکٹر کفایہ افتخار نے مزید کہا کہ ڈاکٹر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر مریضوں اور تمام کمیونٹی کے افراد کی دیکھ بھال میں لگے ہوئے ہیں۔
خاتون ڈاکٹر نے مزید کہا ’ہم سب کو معاشرتی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن حد تک کوشش کے ساتھ غیر ضروری طور پر گھر سے باہر جانے سے گریز کرنا ہوگا تاکہ ہم کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں فاتح ہوسکیں۔‘