رضاکارانہ خدمات مثبت تجربہ ہے جو آپ کے اعتماد میں اضافہ کرتا ہے(فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب میں کورونا وائرس کے خلاف لڑائی کے محاذ پر سعودی رضا کار بھی خدمات میں پیش پیش ہیں۔ کام کے ان لمحات میں وہ اپنے تاثرات اور تجربات سے بھی آگاہ کر رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق جہاں محکمہ صحت کا عملہ ، ڈاکٹرز، نرسیں اور پیرامیڈیکل سٹاف کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر موجود ہے اور ان کی کاوشوں کو بجا طور پر سراہا جا رہا ہے وہیں ہزاروں سعودی رضا کار بھی ان کے ساتھ اس مہم میں شریک ہیں جنہیں کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
اپریل 2020 میں وزارت صحت کی کال پر160،000 سے زیادہ افراد نے آن لائن پورٹل پر رضاکار کی حیثیت سے اندراج کرایا تھا۔ جس کے بعد رضاکاروں کو 400 سے زیادہ مختلف کاموں کے لیے ذمہ داریاں دی گئیں اور اس وقت سعودی عرب میں 72،000 سے زائد رضاکار ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔
عرب نیوز نے ان میں سے چند ایک کو اپنے تاثرات اور تجربات سے آگاہ کرنے کی دعوت دی۔
لیلی عشری میڈیکل انٹرنشپ کے آخری مہینے میں ہیںانہوں نے بتایاکہ کورونا کے مریضوں سے نمٹنے کے خیال پر ان کا ابتدائی ردعمل تشویش ناک لیکن مدد کے جذبے سے لبریزتھا۔
"مجھے تشویش اس بات کی تھی کہ سابق سنڈروم( ایم ای آر ایس) کا خیال سامنے تھا لیکن خوشی تھی کہ اب میں اس پوزیشن میں ہوں جہاں اپنے طبی تجربے سے مدد لے سکتی ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ میں صحت مند نوجوان ہوں اور امید ہے کہ اس خدمت کو بہتر طریقے سے انجام دوں گی لیکن اس بات پر بھی غور کرنا ہے کہ میرے گھر والے اس بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں۔
لیلی عشری نے بتایا کہ ان کی والدہ میں کورونا کی علامات مثبت آئیں تو قرنطینہ میں والدہ کے ساتھ وقت گزارنے کو ترجیح دی کیونکہ گھر پر بھی میں ہی ان کی دیکھ بھال کر رہی تھی۔
والدہ کی نرسنگ کا میرا تجربہ کسی شدید سانس کی علامات والے مریض سے مختلف تھا۔ سب مریضوں کی کیفیات ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ والدہ کی دیکھ بھال کرنا مشکل تھا لیکن شکر ہے کہ میری والدہ مکمل صحت یاب ہو گئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ رضاکارانہ کام کرنا نیک عمل ہے، لوگوں کو صرف اس صورت میں غور کرنا چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے پیاروں کو محفوظ رکھنے کے قابل ہیں۔
خاص طور پر اگر وہ طبی شعبے میں کام کرتے ہیں، میرا مشورہ یہ ہے کہ میڈیکل کے طلباء ، انٹرنشپ اور اس شعبے کے دیگر افراد کو ایسی خدمات پر ضرورغور کرنا چاہئے۔
اسی طرح ہمیں ڈاکٹروں کی حفاظت کو بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی رضاکارانہ خدمات انجام دینے اور احتیاطی تدابیر لاگو کرانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ خدمات پیش کرسکتا ہے۔
لیلی عشری کا عام لوگوں کے بارے میں خیال ہے کہ انہیں حکومتی اور وزارت صحت کے مشوروں پرعمل کرنے کی ضرورت ہے۔
میڈیکل کے طالب علم ترکی العودہ کورونا وائرس کے ہاٹ لائن کال سنٹر میں رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ترکی العودہ نے اپنے تجربات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ مختلف خصوصیات رکھنے والے رضاکاروں کے درمیان ایک خاص بات جو سب سے اہم ہے کہ سبھی ملک کی خدمت کے مشترکہ جذبے کے ساتھ متحد ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ "رضاکارانہ خدمات ایک مثبت تجربہ ہے جو آپ کو اپنی قدر کا احساس دلاتا ہے اور آپ کے اعتماد میں اضافہ کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی سکھاتا ہے کہ آپ چاہے کتنے ہی ہنر مند اور ذہین ہیں آپ سے کہیں زیادہ بہتر نتیجہ دینے والے لوگ موجود ہیں جو ہمیں مسلسل آگے بڑھنے اور اپنے آپ کو مزید بہتر بنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا "ہم نے رضاکارانہ خدمات کے اصول اور مہارت حاصل کی اور وبائی امراض پر قابو پانے کی بنیادی باتوں کے ساتھ قرنطینہ مراکز میں خدمات کے کورس سیکھے۔
ہم نے وبائی امراض سے متعلق تفتیشی ٹیموں کے ساتھ بھی رضاکارانہ طور پر کام کیا اور بحران کے وقت نفسیاتی دباو سے نمٹنے کا طریقہ سیکھا۔ ہمیں ذاتی حفاظتی سامان کے ٹیسٹ بھی دیئے گئے تھے۔
متاثرہ مریضوں سے براہ راست رابطہ نہ ہونے کے باوجود صرف ان کے ساتھ بات چیت کرنا اور فون پر ان کی کہانیاں سننا ہی مجھے متاثر کرنے کے لئے کافی تھا۔
"ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ ذمہ داری کو سمجھے اور اس بحران کے خاتمے تک اپنا کردار ادا کرے۔"
انہوں نے بتایا کہ کئی علاقوں میں رضاکارانہ خدمات کی ضرورت ہے۔ ہر وہ فرد جس کے پاس اہلیت اور وقت ہو اسے درخواست دینے پر غور کرنا چاہئے کیونکہ رضاکارانہ خدمات صحت کے شعبے تک ہی محدود نہیں۔
اکاؤنٹنگ فرم کے لئے کام کرنے والے سلمان المطیری نے عرب نیوز کو بتایا کہ ابتدائی طور پر وہ اس بیماری سےاپنے اہل خانہ کو بچانے کے لیے سوچتے تھے اور اسی خوف کے باعث رضاکارانہ خدمات سے گریزاں ہیں تاہم مریضوں میں اضافے کے پیش نظر انہوں نے وزارت کے رضاکارانہ پروگرام میں سائن اپ کیا۔
انہوں نے بتایا " اس عرصہ میں جب مجھے کئی دفعہ باہر جانا پڑا میں نے ابتدائی طور پر دیکھا کہ لوگ ماسک لگانے اور معاشرتی طور پر دور ی کے قانون پر عمل پیرا نہیں تو میں نے اپنے آپ کو بے بس محسوس کیا"۔
"لیکن سوچا کہ جتنی حد تک مدد میں کرسکتا ہوں کرنی چاہئے، اس سوچ نے مجھے آگے بڑھنے پر آمادہ کیا۔"
المطیری کا کہنا ہے" ہم اس طرح کے آسان طریقوں سے مدد کرسکتے ہیں جیسے ماسک لگانا ، صابن سے ہاتھ دھونا اور معاشرتی فاصلے کے بارے میں آگاہی دینا ، وائرس کی شدت سے لوگوں کو بچانا اور ایسا بہت کچھ ۔"
انہوں نے کہا کہ “سعودی عرب ہماری حفاظت کے لئے بہت سخت جدوجہد کر رہا ہے۔ اس جدوجہد کو کامیاب بنانے کی ہم کوشش کر سکتے ہیں۔