جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایگزیکٹو کے معاملات میں عدالت مداخلت نہیں کرتی (فوٹو: اے ایف پی)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کی چینی انکوائری رپورٹ پر کارروائی روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اس حوالے سے حکم امتناع بھی خارج کر دیا ہے۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں تمام اداروں کو چینی انکوائری رپورٹ پر کارروائی کی اجازت دے دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنی فیصلے میں چینی انکوائری کمیشن کی تشکیل کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت اختیارات کو کسی کو تفویض نہیں کرسکتی۔
عدالتی فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت کا چینی کیس پر اختیارات شہزاد اکبر کو تفویض کرنا درست نہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب آرڈیننس کے تحت وفاقی حکومت کیس نیب کو بھیج سکتی ہے۔
عدالت نے حکومتی ارکان کو چینی کیس پر غیر ضروری بیان بازی سے روکتے ہوئے یہ بھی کہا کہ چینی کیس میں تمام فریقین فئیر ٹرائل کو یقینی بنائیں۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں چینی انکوائری کمیشن کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے شوگر ملز مالکان ایسوسی ایشن کی نیب اور دیگر تحقیقاتی اداروں کو کارروائی سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
سنیچر کو سماعت کے دوران شوگر ملز مالکان نے تحقیقاتی اداروں کو کارروائی سے روکنے کے حکم امتناع میں توسیع کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 70 روپے کلو چینی فروخت کرنے کے مشروط حکم پر تو عمل نہیں ہوا۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹو کے معاملات میں عدالت مداخلت نہیں کرتی، قیمتیں مقرر کرنا عدالت کا کام نہیں۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل شروع کیے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ چینی انکوائری کمیٹی میں آئی ایس آئی کے نمائندے کی شمولیت پر اعتراض کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ چینی انکوائری کمیٹی میں شامل کرنے کا نوٹیفکیشن 25 مارچ کا ہے۔
اٹارنی جنرل نے چینی انکوائری کیس میں پانامہ اور جعلی اکاؤنٹ کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے ان دونوں مقدمات میں بھی جے آئی ٹی یا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی۔ یہی وجہ تھی کہ شوگر انکوائری کمیشن میں حکومت نے تحقیقات کے لیے مختلف اداروں کے افسران شامل کئے۔
اٹارنی جنرل کے مطابق ’یہ کہنا غلط ہو گا کہ چینی انکوائری کمیشن سیاسی مخالفین سے انتقام کے لئے بنایا گیا۔ چینی انکوائری حکومت کے اپنے اتحادیوں اور دوستوں کے خلاف بھی ہو رہی ہے جس کے لیے جرات اور عزم چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا اتحادیوں کے خلاف بھی کارروائی اس بات کا ثبوت ہے کہ شوگر ملز مالکان کے خلاف تعصب نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’حکومت میں موجود لوگوں کے خلاف رپورٹ آئی تو پھر تعصب کہاں ہے؟‘ اس پر چیف جسٹس ن ے شوگر ملز مالکان کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اتنے فئیر کمنٹ کے بعد کیسے حکم امتناع میں توسیع کردیں؟‘
شوگر ملز مالکان کی ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ انکوائری کمیشن کی تشکیل کے بعد اس میں ترمیم یا تبدیلی نہیں ہو سکتی تھی۔ چینی کمیشن میں ترمیم انکوائری کمیشن ایکٹ کی سیکشن 21 کی خلاف ورزی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ خاص ممبر کی شمولیت کا کمیشن پر کیا اثر ہوا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انہوں پہلے کمیشن رپورٹ نہیں پڑھی تھی رات کو پڑھی، وفاقی وزیر اور وزیراعلیٰ پنجاب کے بارے می کمیشن نے لکھا ہے کیا وہ بھی تعصب ہے؟ جنہوں نے اس کی اجازت دی ان کے بارے بھی کمیشن نے لکھا ہے۔ کمیشن رپورٹ میں ان لوگوں کے بارے میں سنجیدہ باتیں لکھی گئیں جو ابھی وفاقی کابینہ میں ہیں، زیادہ تحفظات تو اس پبلک آفس ہولڈر کو ہونا چاہیے تھا جو آج اس حکومت میں ہے، نیب نے پاس کیس گیا تو ان کے خلاف بھی جائے گا، اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے ہم کیسے کہہ دیں کہ رپورٹ تعصب کی بنا پر تیاری کی گئی؟
مخدوم علی خان نے کہا کہ چینی کیس کاروباری افراد کے بنیادی آئینی حقوق کا مقدمہ ہے جس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ متعلقہ تو کابینہ ہے معاون خصوصی نے کیا کوئی الگ فیصلہ کیا؟
وکیل نے کہا کہ کابینہ کا الگ اور معاون خصوصی کا الگ فیصلہ ہوا۔ ان کے مطابق شہزاد اکبر کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کرائیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کابینہ اپنے اختیارات کسی اور کو دے سکتی ہے؟ عدالت نے مسابقتی کمیشن کیس کے فیصلے میں کہا ہے کہ کابینہ اپنا اختیار کسی کو نہیں دے سکتی۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’میں حکومت کو ایڈوانس دیتا ہوں کہ وہ اس پر نظرثانی کرے۔‘
عدالت نے سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔