Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایف بی آر: ’اس مسئلے کا حل ٹویٹ میں نہیں سما سکتا‘

چند ماہ میں ایف بی آر کے متعدد سربراہ تبدیل ہو چکے ہیں (تصویر: سوشل میڈیا)
حکومت کی جانب سے محصولات جمع کرنے سے متعلق وفاقی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی خاتون چیئرپرسن کو عہدے سے ہٹا کر تین ماہ کے لیے نیا چیئرمین تعینات کیا گیا تو سوشل میڈیا نے معاملے پر سوالات کے ڈھیر لگا دیے۔
بہت سے صارفین نے حالیہ تبدیلی کو انتظامی سے زیادہ سیاسی قرار دیا اور اپنے تبصروں میں اس کا تعلق گذشتہ کچھ عرصے کے دوران سامنے آنے والے عدالتی اور حکومتی امور سے جوڑا۔
ایف بی آر کی چیئرپرسن نوشید جاوید کو ہٹا کر ثقافت و قومی ورثہ کا سیکرٹری مقرر کر دیا گیا اور ان کی جگہ گریڈ 22 کے افسر محمد جاوید غنی کو محدود مدت کے لیے چیئرمین بنایا گیا تو یہ گذشتہ دو برس میں اس ادارے کے پانچویں سربراہ بنے۔
سوشل میڈیا صارفین نے برطرفی اور نئی تعیناتی کے پس پردہ اسباب کی تلاش شروع کی اور اس پر تبصرے کیے تو کہیں ٹیکسز کے اہداف کا ذکر ہوا تو کسی نے اصلاحات کے طریقے پر گفتگو کی۔ کسی کو بار بار کی تبدیلی پسند نہ آئی تو کچھ ایسے بھی تھے جو معاشی امور سے متعلق ادارے کی سربراہ کو قومی ورثہ و ثقافت کی ذمہ داری دینے پر سوال اٹھاتے رہے۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے شعبے سے وابستہ عمر سیف نے ایف بی آر میں قیادت کی تبدیلی کا ذکر کیا تو اس طریقے کو ادارے کی بہتری کے لیے نامناسب  قرار دیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’ٹیکس نظام میں اصلاحات کریں، ٹیکس نظام کو خودکار بنائیں اور گورننس بہتر کریں۔ اس مسئلہ کا ایسا حل نہیں جو ٹویٹ میں بیان ہو سکے‘۔
 

ٹیلی ویژن میزبان عنبر رحیم شمسی نے نئے چیئرمین کی تعیناتی کی اطلاع دی تو ساتھ ہی لکھا کہ یہ دو برسوں میں تعینات کیے جانے والے ایف بی آر کے پانچویں چیئرمین ہیں۔

پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے ترجمان سینیٹر مرتضٰی وہاب نے وفاقی حکومت کو حالیہ تبدیلی پر آڑے ہاتھوں لیا اور لکھا کہ ’یہ حکومت اپنی غیرمستقل مزاجی اور ناکارہ پالیسیوں میں مستقل مزاج واقع ہوئی ہے‘۔

جواب میں سندھ حکومت کی کارکردگی سے نالاں صارفین انہیں مختلف معاملات کا حوالہ دے کر حکومتی کارکردگی خراب ہونے کے طعنے دیتے رہے تو کچھ کا کہنا تھا کہ پی پی پی کی وفاقی حکومت کے دور میں بھی ایف بی آر کے پانچ چیئرمین تبدیل کیے گئے تھے۔
تھنک ٹینکس کی دنیا سے وابستہ اور وزیراعظم کی اکنامک ایڈوائزری کونسل کے رکن عابد قیوم سلہری نے اپنے تبصرے میں نئے چیئرمین کے بجائے سابقہ چیئرپرسن کی نئی تقرری کو موضوع بنایا۔ انہوں نے لکھا کہ ’نوشین جاوید کو قومی ورثہ اور ثقافت کے شعبے کا سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے۔ پاکستان کا گورننس ماڈل یہ فرض کرتا ہے کہ آمدن اور ثقافت وغیرہ کے الگ الگ شعبوں کو چلانے کے لیے درکار صلاحیتیں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔

کیوں ہٹایا، کون سا مقصد حاصل کیا جائے گا اور ادارے کے نئے سربراہ کیا کریں گے؟ جیسے سوالوں کے ساتھ ساتھ تیزی سے بدلتے چیئرمین اور اس کے نتیجے میں مستقبل کا منظر نامہ بھی موضوع بنا۔ محمد جنید نامی صارف نے مزاح کی کیفیت پیدا کرنا چاہی تو لکھا کہ ’پریشان نہ ہوں، پانچ برس بعد وزیراعظم اپنے دور میں مقرر کیے گئے ایف بی آر چیئرمینز کا 15 رکنی سکواڈ بنائیں گے‘۔

گفتگو کا حصہ بننے والے کچھ صارفین نے کہا کہ یہ تو کسٹم گروپ کے افسر ہیں، کسی ایسے کو تعینات کیا جائے جو براہ راست ٹیکس سے متعلق ہوں۔
ایف بی آر سربراہ کی تبدیلی پر معاملہ صرف حکومت پر تنقید یا تجاویز و مزاح تک ہی محدود نہیں رہا۔ تنقید کرنے والوں کو حکومتی حامیوں کی جانب سے جواب بھی دیا جاتا رہا۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ شہباز گل نے معاملے کو وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری سے جوڑتا دیکھا تو اسے غلط خبر قرار دیا۔ 

چند روز قبل ایف بی آر کی جانب سے میڈیا کو جاری کردہ ایک خبر میں کہا گیا تھا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ادارے نے ہدف سے زائد آمدن اکٹھی کی ہے۔ مالی سال کے لیے تین ہزار 907 ارب روپے کے ہدف سے 177 ارب روپے زائد جمع کرتے ہوئے کل  چار ہزار 84 ارب ٹیکس جمع کیا گیا ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: