Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کراچی کی فلمیں ٹیلی ڈرامہ لگتی ہیں‘

پاکستان میں نئی بننے والی فلمیں شائقین کو سینیما گھروں تک لانے میں ناکام رہی ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا
باغوں کا شہر’لاہور‘ قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں فلمی صنعت کا مرکز رہا ہے۔ 1947میں پاکستان بنا تو بھی فلمی صنعت کا مرکز بدستور لاہور ہی رہا۔
سنہ 1948میں لاہور کے پنچولی سٹوڈیو میں بننے والی پہلی فلم ’تیری یاد‘ ریلیز ہوئی۔ لاہور میں فلمیں بننے کا سلسلہ ایک دہائی تک چلتا رہا، اس کے بعد پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کراچی میں بھی فلمیں بننا شروع ہوئیں۔
کراچی کے ایسٹرن سٹوڈیو میں بننے والی ’چراغ جلتا رہا‘ جیسی سپرہٹ فلم نے ساحلی شہر کو فلم انڈسٹری کے لیے اہم بنا دیا۔
کراچی میں بھی کئی کامیاب فلمیں بنیں جن میں ہیڈ کانسٹیبل، بہن بھائی، ارمان، جب سے دیکھا ہے تمہیں، دوراہا اور سالگرہ جیسی فلمیں قابل ذکر ہیں۔ جس وقت کراچی میں فلمیں بننا شروع ہوئیں اس وقت لاہور فلمی صنعت کا مرکز ہونے کے حوالے سے اپنی پہچان بنا چکا تھا۔

 

یہ ماننے والی بات ہے کہ کراچی میں بہت بڑی بڑی فلمیں بھی بنیں جنہوں نے ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل کی لیکن اس کے باوجود کراچی کبھی بھی فلمی صنعت کا مرکز نہیں بنا، ہاں مختصر عرصے کے لیے وہاں فلمی رونقیں قائم ضرور ہوئیں۔
کراچی میں سٹوڈیوز کی تعداد کم تھی جبکہ لاہور میں تو قیام پاکستان کے وقت ہی کافی سٹوڈیوز تھے۔ لاہور میں کام کے لحاظ سے سٹوڈیوز بہتر ہونے کی وجہ سے کراچی سے وحید مراد، زیبا، دیبا، محمد علی و دیگر فنکاروں کو لاہور کا رخ کرنا پڑا۔
شاہ نور سٹوڈیو جو کہ قیام پاکستان سے پہلے ’شوری سٹوڈیو‘ کہلاتا تھا۔ یہ سٹوڈیو روپ کے شوری جو کہ بھارتی اداکارہ مینا شوری کے شوہر تھے ان کا تھا، قیام پاکستان کے بعد جب وہ ہندوستان چلے گئے تو یہ سٹوڈیو ٹوٹی پھوٹی اور جلی ہوئی حالت میں تھا جسے بعد میں شوکت حسین رضوی اور میڈم نورجہاں نے الاٹ کروا لیا اس کو ٹھیک کروایا یہاں نئے کیمرے لائے گئے اور فلمیں بنانی شروع کیں۔

پاکستان میں زیادہ تر فلم سٹوڈیوز لاہور میں تھے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

اسی سٹوڈیو میں لازوال اردو اور پنجابی فلمیں بنیں۔ ’چن وے‘ پاکستان کی ایسی فلم تھی جسے کسی خاتون نے ڈائریکٹ کیا اور وہ خاتون تھیں میڈم نور جہاں۔ اس فلم میں سنتوش کمار اور حالیہ دور کے اداکار شامل خان کے والد جہانگیر خان تھے۔
شاہ نور سے پہلے اپر مال پر پنچولی سٹوڈیو ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور سٹوڈیو بھی تھا جو بعد میں ملکہ سٹوڈیو کہلایا یہ ملکہ پکھراج اور ان کے شوہر کا تھا۔
اسی طرح لاہور میں ایک باری سٹوڈیو تھا جہاں بہت اچھی فلمیں بنیں۔ باری سٹوڈیو باری ملک نے بنایا جن کے ماموں نذیر ہندوستان کے بہت بڑے فنکارتھے۔ باری ملک ڈسٹری بیوٹر بھی تھے وہ اپنے ماموں نذیر کی فلمیں پاکستان میں ریلیز کیا کرتے تھے۔

کراچی کے سٹوڈیوز میں بھی کئی یادگار فلمیں بنیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

باری ملک نے 1947 سے پہلے ڈسٹری بیوشن کا جو ادارہ بنایا تھا اس کے تحت ’یکے والی‘ اور ’ماہی منڈا‘ بنائی، فلم یکے والی نے خوب کمائی کی اس قدر کمائی کی کہ باری ملک نے ایک بہت بڑا رقبہ خرید کر باری سٹوڈیو بنا لیا۔ ایورنیو سٹوڈیو میں بھی شاہکار فلمیں بنیں۔ اس کے علاوہ شباب کیرانوی جو کہ پہلے ’ڈائریکٹر‘ کے نام سے پرچہ نکالتے تھے نے شباب سٹوڈیو بنایا۔ پھر اقبال شہزاد جو کہ ریکارڈسٹ تھے نے ’سے ٹل‘ کے نام سے ملتان روڈ پر سٹوڈیو بنایا۔ یہیں نشو، محمد علی اور ندیم کی فلم ’بازی‘ بنی۔
میکلوڈ پر سٹی سٹوڈیو بھی تھا جو کہ روپ کے شوری کا ہی تھا، یہاں صرف ریکارڈنگز ہوا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ لاہور میں باغبانپورہ کی طرف پاکستان منٹ کے پاس دو سٹوڈیوز تھے جو قیام پاکستان کے دوران بلوؤں میں جل گئے تھے۔ اسی طرح داتا دربار کے پاس نگار اور ملک تھیٹر تھے۔ ملک تھیٹر کے سامنے ایک سٹوڈیو  ہوا کرتا تھا جہاں نامور اداکار ’اجمل‘ گیٹ کیپر بھی رہ چکے تھے، وہ سٹوڈیو بھی قیام پاکستان کے دوران بلوؤں کی نذر ہو گیا تھا۔ 
ہم لاہور اور کراچی میں بننے والی فلموں اور سٹوڈیوز کا ذکر تو کر رے ہیں یہاں اگر بنگلا فلموں کی بات نہ کی جائے تو نامناسب ہوگا۔

ادکار ندیم بیگ نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو کئی سپرہٹ فلمیں دیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

 ایک ایسا وقت بھی آیا کہ ڈھاکہ میں بھی فلمیں بننا شروع ہو گئیں۔ ابتدا میں ڈھاکہ میں بنگلہ فلمیں ہی بنتی تھیں لیکن بعد میں اردو فلمیں  بھی بننا شروع ہو گئیں وہاں پہلی اردو فلم ’چندا‘ بنی جس میں شبنم اور رحمان تھے۔ یہ فلم پاکستان میں بھی ریلیز ہوئی۔
فلمسٹار ندیم بیگ جنہوں نے لاہور میں بھی قسمت آزمائی وہ جب مشرقی پاکستان گئے اور وہاں ڈائریکٹر احتشام کے یونٹ کا حصہ بنے اور ’چکوری‘ جیسی فلم میں کام کیا۔ یہ فلم سپر ہٹ ہوئی۔ یوں مشرقی پاکستان میں بننے والی فلمیں ہمارے ہاں بھی ریلیز ہونے لگیں پھر 1971 میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ بات پھر کراچی اور لاہور پر آن ٹھہری۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں سالانہ بننے والی فلموں کی تعداد تسلی بخش رہی۔  یہاں تک کہ ایک سال میں سو سے زیادہ فلمیں بنتی رہیں، فیملیز سینیما گھروں کا رخ کیا کرتی تھیں۔ اس کے بعد 1980 میں اردو کی نسبت پنجابی فلمیں زیادہ بننے لگیں۔
آگے چل کر’مولا جٹ‘ جیسی فلم نے ریکارڈ توڑ بزنس کیا۔ اس فلم کے بعد گنڈاسہ کلچر نے سر اٹھایا اور مولا جٹ کی طرز پر ہر دوسری فلم بننے لگی، کرتے کرتے رومینٹک فلموں کی جگہ مارکٹائی والی بے ہودہ قسم کی پنجابی فلموں نے لے لی۔

ناقدین کے مطابق آج کل کراچی میں بننے والی فلمیں ٹیلی ڈرامہ ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

نوے کی دہائی میں بھی زیادہ تر پنجابی فلمیں ہی بنیں گوکہ اُس دور میں بھی اردو فلمیں بنیں لیکن ان کی تعداد خاصی کم رہی۔ پنجابی فلموں کی تعداد بڑھتی گئی۔
ایک وقت آیا کہ نان پروفیشنل لوگ فلم انڈسٹری میں آ گئے۔ انہوں نے اپنی مرضی کی ایسی فلمیں بنوائیں یا بنائیں جس سے یہ ہوا کہ شائقین ناراض ہو کر گھروں میں بیٹھ گئے۔ اس دوران بالی وڈ کی فلمیں بھی سینما گھروں کی زینت بننے لگیں چونکہ ہمارے ہاں فلمیں اچھی نہیں بن رہیں تھیں تو فیملیوں نے پاکستانی فلمیں دیکھنا چھوڑ دیں۔ بالی وڈ کی فلمیں کچھ عرصہ چلیں اور پھر ایک وقت آیا کہ سینما گھر ویران ہونے لگے۔
 مالکان کو نقصان ہونے لگا تو انہوں نے سینما گھر بند کر دیے تو کہیں سینما گھروں کو توڑ کر پلازے تعمیر ہونے لگے، وہ سٹوڈیوز جہاں کبھی رونقیں ہوا کرتی تھیں وہاں اُلو بولنے لگے، ویران سٹوڈیوز میں اب کام کرنے والے پروفیشنلز نہیں رہے تھے۔ یوں لاہور سے فلم انڈسٹری کا قصہ تمام ہوا اور کئی سال تک کوئی فلم نہ بنی۔
چند برس قبل کراچی میں ٹی وی سے وابستہ لوگوں نے فلمیں بنانا شروع کیں تو یوں فلم انڈسٹری کئی دہائیوں کے بعد کراچی سے سر اٹھانے لگی ہے۔ تاہم ناقدین کہتے ہیں کہ ان کی فلمیں ٹیلی ڈرامہ لگتی ہیں۔

پنجابی فلم مولا جٹ کی کامیابی کے بعد ہر دوسری فلم میں گنڈاسہ نظر آنے لگا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

لاہور میں فلمی صنعت کو زوال آنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی کہ وقت کے ساتھ چلنے اور نئے تجربات کرنے کے بجائے وہی روٹین کی فارمولا فلمیں بنتی رہیں۔ لوگ ایک ہی طرح کے ہیرو اور ہیروئین، مار دھاڑ، بے ہودگی اور بغیر سر پیر کے کہانیوں کو دیکھ کر اکتا گئے تھے۔
اپنے موضوع کی مناسبت سے ہم نے اداکار مصطفی قریشی سے بات کی انہوں نے کہا کہ پچاس ، ساٹھ ، ستر اور اسی کا دور فلمی صنعت کی خوشحالی کا دور تھا۔ لاہور میں سٹوڈیوز کی تعداد زیادہ جبکہ کراچی میں کم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی سے کام لاہور شفٹ ہوا۔ کراچی میں ایسٹرن سٹوڈیو ایک ایسا سٹوڈیو رہا جہاں لازوال فلمیں بنیں۔ کراچی میں اردو فلموں کے ساتھ سندھی فلمیں بھی بنیں۔
’لاہور تو جیسے ستاروں کا جھرمٹ رہتا تھا۔ ہر کوئی کام  میں مصروف تھا، ہم نے لاہور میں ایسا دور بھی دیکھا کہ سٹوڈیوز کے ہر فلور پر شوٹنگز چل رہی ہوتی تھیں۔ ہم لوگ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے تھے، میں بھی ایک طرح سے کراچی سے ہی آیا تھا اور لاہور میں گھر بنا لیا۔‘
اداکارہ دیبا بیگم نے کہا کہ جب میں نے 1961میں فلم ’چراغ جلتا رہا‘ میں کام کیا وہ کراچی میں ہی بنی اور اُس وقت کراچی میں فلمیں بن رہیں تھیں، اُس زمانے میں وہاں تین سٹوڈیوز تھے جبکہ لاہور میں تو سات سے زائد تھے۔
’لاہور تو قیام پاکستان سے قبل ہی فلمی صنعت کا مرکز تھا جب ہم نے کام شروع کیا تو دیکھا کہ یہاں جتنے بھی سٹوڈیوز تھے وہاں ہر فلور پر  ہر وقت کام ہو رہا ہوتا تھا، کبھی کبھی تو ایک فلور پر دو فلموں کے سیٹ لگے ہوتے تھے۔ ہر فنکار کی اپنی فین فالونگ تھی، کوئی فلم لگتی تو فرسٹ ڈے، فرسٹ شو کے لیے لوگوں کو میں نے ٹکٹیں خریدنے کے لیے ایک دوسرے کے سر پھاڑتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ میں نے کراچی میں بھی کام کیا اور لاہور میں بھی۔ تاریخی دور تھا جو واپس نہیں آنا۔ افسوس ہوتا ہے کہ اب سٹوڈیوز ویران ہیں وہ وقت نہیں آنا جو ہم نے دیکھا ہے۔‘

شیئر: