انڈیا اور پاکستان میں سائبر ٹیکنالوجی میں سبقت کس کی؟
انڈیا اور پاکستان میں سائبر ٹیکنالوجی میں سبقت کس کی؟
جمعرات 13 اگست 2020 7:28
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کئی دہائیوں سے کشیدہ ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) ایک بیان میں انڈین خفیہ اداروں کی جانب سے پاکستان میں سائبر حملوں کی نشاندہی کرتے ہوئے تمام حکومتی اداروں کو ایڈوائزری جاری کی ہے۔
بدھ کی شام جاری بیان میں کہا گیا کہ ’انڈین انٹیلی جنس ایجنسیوں نے سائبر حملوں کے تحت پاکستانی سول اور عسکری عہدیداروں کے ذاتی موبائل اور تکنیکی آلات ہیک کرنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ افواج پاکستان نے اس قسم کی سرگرمیاں ناکام بنانے کی غرض سے حفاظتی اقدامات بڑھا دیے ہیں۔‘
ماضی میں امریکہ، چین اور روس ایک دوسرے پر سائبر حملے کرنے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ پاکستان کی فوج کی جانب سے بھی متعدد بار ففتھ جنریشن یا ہائبرڈ وار کے حوالے سے بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے کہا ہے کہ بنیادی طور پر سائبر حملوں کا مقصد دشمن ملک کو ہراساں کرنا ہوتا ہے۔
’معلومات تک رسائی حاصل کر کے اس کا غلط استعمال کرنا یا پھر معلومات کو درست انداز میں پہنچنے نہ دینا مقصد ہوتا ہے اور یہ ایک انتہائی خطرناک جنگ ہے جس کے کافی ہولناک نتائج ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا ’انڈیا پاکستان کے خلاف سائبر جنگ میں مستعد ہے لیکن پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیز کی کوشش ہوتی ہے وہ ردعمل کے طور پر ان حملوں کو ناکام بنائے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کے پاس سائبر ٹیکنالوجی میں جارحانہ اور دفاعی دونوں ٹیکنالوجیز موجود ہیں لیکن اس میں سبقت وہ ممالک لے جاتے ہیں جن کے پاس سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی اور دوسرے ذرائع موجود ہے۔
لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کے مطابق ٹیکنالوجی کی جنگ میں ممالک ایک دوسرے کی محدود حد تک مدد کرتے ہیں۔
’چین پاکستان کی کچھ حد تک مدد ضرور کرتا ہے لیکن زیادہ مدد اس لیے نہیں کر سکتا کیونکہ اس کو خود بھی کمپرومائزڈ ہونے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ممالک خود اپنی صلاحیت میں اضافہ کریں۔‘
دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے اردو نیوز کو بتایا کہ جس طرح سویلینز ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے سسٹم کو ہیک کرتے ہیں اسی طرح دفاعی آلات سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے انٹیلیجنس ایجنسیز سائبر حملے کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’سائبر حملوں میں سسٹم میں موجود دفاعی اقدامات کو توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اسی لیے وقت کے ساتھ ساتھ ان سسٹمز کو اپ ڈیٹ کیا جاتا رہتا ہے۔‘
پاکستان اور انڈیا سائبر ٹیکنالوجی میں سبقت کس کی؟
لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کہتے ہیں کہ ہمارے سکیورٹی اداروں کی کوشش ہے کہ دفاعی اور جارحانہ دونوں انداز میں سائبر ٹیکنالوجی میں سبقت حاصل کرے لیکن ان سب کا دارومدار آپ کے ملک میں تعلیم، ریسرچ، انڈسٹری اور دیگر ٹیکنالوجی کے ساتھ ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ انڈیا کے پاس ٹیکنالوجی زیادہ ایڈوانس ہے، اور اس کی کئی عرصے سے یہ کوشش ہے کہ سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کی طرف رخ کیا جائے، اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈیا کی ٹیکنالوجی بہتر ہے اور ان کو امریکہ کا بھی تعاون حاصل ہے، گو کہ پاکستان کو چین کا تعاون حاصل ہے لیکن وہ خود بھی کوشش کر رہا ہے کہ ٹیکنالوجی کی جنگ میں امریکہ پر سبقت کے جائے۔‘
سائبر وار میں کیا عام شہری بھی نشانے پر ہوتے ہیں؟
لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کہتے ہیں کہ ’آج کل کی جنگ معلومات کی جنگ ہے، اور آپ کو کتنا معلوم ہے دوسرے ملک کے لوگوں کے بارے میں تو یہ سب چیزیں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔‘
وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سابق ایڈشنل ڈائریکٹر جنرل عمار پاشا نے اردو نیوز کو بتایا کہ چین، امریکہ روس اور دیگر ممالک کے درمیان اس طرح کے حملے ہر وقت جاری رہتے ہیں۔
’ان حملوں میں اکثر ایسے اہداف کو نشانہ بنانا ہوتا ہے جس سے مملکت کے اہم امور تک رسائی حاصل کی جائے اور یہ دونوں اطراف سے جاری رہتے ہیں۔ ماضی میں ایران کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ ان کا 60 فیصد مواد ضائع کر دیا گیا اور وہ سائبر حملے کے نتیجے میں ہی کیا گیا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ عام شہری کی معلومات تک بھی رسائی حاصل کی جاتی ہے اور ڈیٹا کو اپنے استعمال میں لانے کے لیے یا پھر مختلف اداروں کو وہ ڈیٹا فروخت بھی کیا جاتا ہے۔