Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میاں بیوی کے لطیفے، 'اصل بات سب کو پتا ہے'

لطیفے مزاح کی ایک قسم ہیں جس سے کسی کو ہنسایا جاسکتا ہے۔ (تصویر : ان سپلش)
لطائف معاشرے میں ہلکے پھلکے مزاح اور تفریح کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ کوئی بھی مختصر کہانی جس کا اختتام مزاحیہ نتیجے پر ہو لطیفے کے طور پر ہی لی جاتی ہے۔ 
ادب اور شاعری کی طرح لطیفے بھی نسل در نسل منتقل ہوتے رہتے ہیں البتہ یہ ضروری نہیں کہ اس دوران الفاظ میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو، لیکن مفہوم اور نتیجہ وہی رہتا ہے۔
اکثر لطیفے لوگوں کی ذاتی زندگی پر بھی مبنی ہوتے ہیں۔ رزومرہ زندگی میں میاں بیوی، استاد شاگرد، دوست اور رشتہ داروں پر بھی لطیفے بنائے جاتے ہیں۔
 ٹوئٹر ہینڈل ’یو جی‘ نے اس موضوع سے متعلق بات کرتے ہوئے لکھا کہ شادی شدہ افراد سے متعلق لطیفوں میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ شوہر بیوی سے بہت ڈرتا ہے اور گھر کے سارا کام بھی کرتا ہے۔ ’مگر اصل بات سب کو پتہ ہے بہت کم مرد گھر کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔‘

ٹوئٹر ہینڈل ان آئڈنٹیفائڈ نے لطیفے کی تعریف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ لطیفہ بنتا ہی ایسی باتوں پر ہے جو حقیقت سے مختلف ہوں۔ ’ورنہ تو روٹین کی بات محسوس ہوگی اور شاید اس کو ٹریجیڈی کہہ سکتے ہیں لطیفہ نہیں۔‘

ٹوئٹر صارف ہانیہ خان نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ’ایسے لطیفے زیادہ تر مغربی میگزین وغیرہ سے  کاپی شدہ ہوتے ہیں۔‘

یورپ میں پرنٹنگ انقلاب شروع ہوا تو شاعری، ادب اور دیگر مواد کے ساتھ لطیفے بھی شائع ہوکر تیزی سے پھیلنے لگے۔ پرنٹنگ انقلاب آنے کے بعد ایک اطالوی مصنف  پوجو براچیولینی نے لطیفوں کی پہلی کتاب سنہ 1470 میں شائع کی تھی جسے بہت پسند کیا گیا۔

ادب اور شاعری کی طرح لطیفے بھی نسل در نسل منتقل ہوتے آئے ہیں البتہ الفاط میں تبدیلی ممکن ہے (تصویر: پکسا بے)

ٹوئٹر صارف میورک نے لکھا کہ ’میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کوئی بیوی اپنے شوہر سے زبردستی گھر کے کام کروا رہی ہو، ایسے لطیفے مرد حضرات کی طرف سے کیاجانے والا پروپیگنڈا ہیں۔‘

جہاں کئی صارفین اس حوالے سے مزاحیہ گفتگو کرتے رہے وہیں کچھ کے خیال میں اس قسم کے کچلر کے بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے گفتگو میں حصہ لینے والے صارف سہیل احمد کا کہنا تھا کہ میاں یا بیوی کے مذاق اڑانے والے کلچر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ 

بعض صارفین لطائف، مزاح اور تضحیک میں فرق بھی واضح کرتے نظر آئے۔

شیئر: