پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو اپوزیشن جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس میں خطاب کے بعد ایک بار پھر غداری کے الزامات کا سامنا ہے۔
صرف نواز شریف ہی نہیں بلکہ ان کی صاحبزادی مریم نواز کے بارے میں بھی حکومتی ترجمان شہباز گل انڈین شہریوں سے ملاقاتوں کے الزامات عائد کر رہے ہیں اور اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کو انڈین ایجنڈا قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں کسی سیاسی رہنما کو غدار قرار دیا گیا ہو۔
مزید پڑھیں
-
’مسلم لیگ ن میں سے ش نکلے گا نہ م‘Node ID: 507861
-
کیا حکومت کو خطرہ ہے؟Node ID: 509176
-
نواز شریف سمیت 42 رہنماؤں پر ’مجرمانہ سازش‘ کا مقدمہ درجNode ID: 509251
معروف محقق ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق پاکستان میں اپوزیشن کے ہر فرد کو غدار قرار دیا جا چکا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’ہمارے ہاں انڈیا سے جنگ کی مخالفت کرنے والوں کو بھی غدار سمجھا جاتا ہے۔ انڈیا کے حوالے سے ہمارے ہاں ایک مخصوص سوچ ہے۔ سنہ 47 سے ’کرش انڈیا‘ کے سٹکرز گاڑیوں پر چسپاں کرکے اس سوچ کا اظہار کیا گیا۔‘
کب کس کو غدار کہا گیا؟
تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان میں اپنے کسی بھی سیاسی حریف کو غدار قرار دینے کا سلسلہ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے حسین شہید سہروردی کو قرار دے کر شروع کیا تھا۔
اس کے بعد ایوب دور میں قائداعظم کی ہمشیرہ اور صدارتی امیدوار فاطمہ جناح کو غدار قرار دیا گیا۔
خدائی خدمت گار تحریک کے خان عبدالغفار خان کو بھی غدار کہا گیا۔ بھٹو دور میں نیشنل عوامی پارٹی اور اس کے رہنماؤں پر غداری کے مقدمات قائم ہوئے۔
پھر اسی ذوالفقار بھٹو کو ملک دو لخت کرنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا اور پیپلز پارٹی تمام تر کوششوں کے باوجود ’ادھر تم اور ادھر ہم‘ کے مبینہ بیان جیسے دھبے کو مٹا نہیں سکی۔
جام صادق اور غلام مصطفیٰ کھر پر بھی غداری کے الزامات لگے اور انھیں انڈین ایجنٹ قرار دیا گیا۔ عبد الصمد خان اچکزئی، عطاءاللہ خان مینگل، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری بھی غداری کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں۔
ضیا دور میں ایم آر ڈی کے کئی راہنماؤں کو بھی غداری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
سینیئر صحافی ضیاالدین نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو میں کہا کہ عموماً غداری کے ان الزامات کا مقصد ناپسند سیاست دانوں کو عوام میں بدنام کرنا ہوتا ہے۔ ماضی میں بنگال، سندھ اور بلوچستان کے رہنماؤں کو غدار کہا جاتا تھا تاکہ ملک کی بڑی آبادی یعنی پنجاب میں ان کو بدنام کیا جائے۔‘
مکافات عمل کہیے یا سیاسی مجبوریاں کہ نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسک قرار دیا تو بلاول بھٹو زرداری نے انھیں ’مودی کا یار‘ قرار دے کر بدلہ لے لیا۔ تاہم کچھ ہی دنوں بعد وہ اپنے اس بیان سے یہ کہہ کر مکر گئے کہ ’میں منتخب وزیر اعظم کو غدار نہیں کہہ سکتا۔‘
ڈان لیکس میں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو غدار قرار دے کر سوشل میڈیا پر ان کے خلاف بھرپور مہم چلی۔
نواز شریف کی انڈین بزنس مین سجن جندال سے مری میں ہونے والی ملاقات کو بنیاد بنا کر بھی ان کو سیکیورٹی رسک قرار دیا جاتا رہا ہے بلکہ ان کی بحیثیت وزیر اعظم انڈین قیادت سے ہونے والی ملاقاتوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔
ضیا الدین کے مطابق ’پنجاب بالخصوص وسطی پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے غدار قرار دیے گئے افراد کو غدار کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ اب پہلی بار ہے کہ اسی پنجاب کے لوگوں کو غدار قرار دیا جا رہا ہے اسی وجہ سے اس الزام کو عوامی مقبولیت حاصل ہونے میں مشکل ہو رہی ہے۔‘
صرف سیاست دان ہی نہیں پاکستان میں شاعروں اور ادیبوں کو بھی غداری کے فتووں کا سامنا رہا ہے۔ فیض احمد فیض، جالب اور موجودہ وزیر اطلاعات شبلی فراز کے والد احمد فراز بھی ’غداروں‘ کی فہرست میں شامل رہے ہیں۔
سینیئر صحافی ضیا الدین کا کہنا ہے کہ ’آج تک جس پر اس طرح سے غداری کا الزام لگا ہے عدالتوں میں یا تو اسے کبھی لے جایا ہی نہیں گیا یا پھر کبھی ثابت نہیں کیا جا سکا۔ تاہم جس پر الزام لگا اس کو کسی نہ کسی طریقے سے سزا ضرور دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ شیخ مجیب پر الزام لگا تو بنگلہ دیش بنا دیا، بھٹو کو قتل کے مقدمے میں پھانسی لگوا دی گئی۔ ولی خان اور ایم آر ڈی کے لوگوں کو جیلوں میں بھیج دیا گیا لیکن ان پر مقدمات ثابت نہیں کیا جا سکے۔‘
معروف محقق ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ ’جن پر الزام لگتا ہے اگر وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ الزام غلط ہے تو انھیں ہتک عزت کا دعویٰ کرنا چاہیے۔ اگر وہ کیس دائر نہیں کرتے تو یہ الزام قبول کرنے کے مترادف ہے۔‘
ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ’ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کا کلچر پروان چڑھنا چاہیے۔ ورنہ ہمارے ہاں جو کسی کے منہ میں آتا ہے دوسرے کے بارے میں بغیر کسی دلیل اور تحقیق کے کہہ دیتا ہے۔ یہ سلسلہ ہتک عزت کے مقدمات سے ہی رک سکتا ہے۔‘ِ
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں