سعودی عرب کے شمال مغربی علاقے ’البدع‘ میں مدائن شعیب عظیم تمدن کی عظمت رفتہ کا ثبوت ہے۔ یہاں الانباط کے آثار قدیمہ اورغاروں کے بیرونی حصے بے حد مقبول ہیں۔ یہ نیوم کے تحت تبوک علاقے میں پائے جانے والے اہم اور نمایاں ترین تاریخی مقامات ہیں۔
العربیہ نیٹ کے مطابق ان تاریخی مقامات کے کئی نام ہیں۔ انہیں ’مدائن شعیب‘ کے علاوہ ’مدین‘ اور ’مغایر شعیب‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یونانی مورخ بطلیموس نے اس علاقے کو سبز نخلستان کا نام دیا تھا۔
سعودی فوٹو گرافر عبدالالہ الفارس نے ان تاریخی مقامات کی تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر جاری کیں۔ جن کی بدولت باتصویر تاریخی معلومات دنیا بھر کے شائقین تک پہنچ گئیں۔
الفارس نے بتایا کہ مدائن شعیب کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ یہ سیلاب کا مقابلہ کرنے کے لیے سطح مرتفع پر تعمیر کیے گئے۔ مدین ایک بڑی وادی ’وادی عفال‘ میں واقع ہے۔ مدین یا مغایر شعیب میں جو آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں وہ العلا شہر میں تراشے ہوئے تاریخی مقامات سے کسی طرح بھی کم اہم نہیں۔ العلا میں عمارتوں کے بیرونی حصے کوچٹانیں تراش کر بنایا گیا ہے۔ یہی کام مدائن شعیب میں بھی کیا گیا ہے۔
مورخین کا کہنا ہے کہ مدائن شعیب چٹان تراش کر بنایا ہوا قدیم نخلستان ہے۔ نبطی تمدن سے اس کا تعلق ہے- ماہرین آثار اسے نبطیوں کے تمدن کا نام دیتے ہیں۔
مدائن شعیب تاریخی شہر ہے یہاں پہاڑوں اور چٹانوں میں متعدد گھر اور تاریخی عبادت گھر تراش کر بنائے گئے ہیں- یہ جزیرہ نمائے عرب کے مغربی علاقے الحجاز میں واقع ہیں- اب اس جگہ کا نام البدع ہے- یہ تبوک ریجن میں واقع ہے- یہ مدائن صالح کے آثار قدیمہ سے ملتے جلتے ہیں-
بعض ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ یہ 2 ہزار قبل مسیح پرانے ہیں۔ یہاں مدین قبیلہ آباد تھا۔ مدین کا ذکر توریت میں کئی بات آیا ہے- قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر ہے بتایا گیا ہے کہ پیغمبر موسی نے فرعون سے جان بچا کر مدین میں پناہ لی تھی۔ مدین کے مکانات الحجر میں قوم ثمود کے مکانات سے ملتے جلتے ہیں۔
سعودی مورخ حمد الجاسر نے اپنی تصنیفات میں مدائن شعیب کا ذکر البدع کے نام سے کیا ہے۔ انہوں نے اس کا تعارف کراتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ مغایر شعیب قدیم نخلستان ہے۔
الجاسر نے بتایا کہ البدع ، مدین کی سرزمین میں واقع ہے اور ’الایکۃ‘ کا نام اب تک وادی النمیر کے لیے بولا جاتا ہے۔
معروف مورخ الیعقوبی نے تحریر کیا ہے کہ یہ قدیم شہر ہے۔ کھیتی باڑی، کثیر تعداد میں چشموں اور میٹھے پانی والے دریاؤں کی سرزمین ہے۔ برطانوی سیاح روپیل نے 1850 میں مدائن شعیب کا سفر کیا تھا- یہ پہلے سیاح ہیں جنہوں نے اس کی بابت تحریر کیا اور مغربی سکالرز نے ان کی تحریریں پڑھ کر اس کی سیاحت کی۔