لاری اڈے کے سامنے گریٹر اقبال کے مرکزی گیٹ پر پہنچا تو سب معمول کے مطابق دکھائی دیا۔ (فوٹو: اردو نیوز)
جلسے سے ایک روز پہلے سنیچر کو اپنے دفتر کی طرف سے اس کی کوریج پر مامور تھا۔ جلسہ گاہ کی طرف گیا تو مجھے قریب قریب ایسی کوئی تیاریاں دکھائی نہیں دیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ 13 دسمبر کو لاہور میں کچھ غیرمعمولی ہو رہا ہے۔
میرا پہلا راستہ ریلوے سٹیشن کی طرف سے تھا۔ ٹریفک کے روایتی ہجوم میں ایکموریہ پل کراس کرتے ہوئے جب لاری اڈے کے سامنے گریٹر اقبال کے مرکزی گیٹ پر پہنچا تو سب معمول کے مطابق دکھائی دیا۔
فیملیز سنیچر کے روز اپنے معمول کے طور طریقوں پر آ جا رہی تھیں، کوئی بھی ان کو مینار پاکستان گراؤنڈ کے اندر جانے سے نہیں روک رہا تھا۔
اہم بات یہ تھی کہ اس راستے پر کہیں بھی ایک روز بعد ہونے والے جلسے سے متعلق کوئی بھی اشتہار اور بینر کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔
بادامی باغ لاری اڈا کے قریب البتہ اکا دکا رکشے اور موٹر سائیکل ایسے نظر آئے جن پر مسلم لیگ ن کے جھنڈے لگے تھے جو اس بات کا احساس دلا رہے تھے کہ لاہور میں کچھ ہو ضرور رہا ہے۔
مینار پاکستان چوک پر صورت حال واضح ہوئی جب جگہ جگہ مسلم لیگ ن اور دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں کے جھنڈے اور اشتہار دکھنے شروع ہوئے۔ گیٹ نمبر چار پر پتا چلا کہ لیگیوں نے تالا توڑ کر جلسے کے انتظامات کے لیے سامان اندر پہنچا دیا ہے اور مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں 13 دسمبر کے جلسے کی تیاریاں جاری ہیں۔
کرسیاں لگائی جا رہی تھیں۔ ڈی جے بٹ کی جگہ ایک مختلف ساؤنڈ سسٹم اپنے سپیکر لگا رہا تھا۔ اور لیگی کارکن تالا توڑ کر گراؤنڈ میں گھس کر انتظامات شروع کرنے پر نازاں تھے۔
کچھ عجیب تھا، کچھ عجلت میں تھا لیکن اس کا احاطہ کرنا شاید ممکن نہیں تھا۔ دو جلسے پیپلزپارٹی کر چکی ہے۔ ایک کراچی اور ایک ملتان، ایک میں انہیں کسی پریشانی کا سامنا نہیں تھا اور جلسہ گاہ کو جانے والے راستوں پر پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کے رہنماؤں کی تصاویر لگائی گئیں تھیں اور سوشل میڈیا پر اس بات کو خاصی پزیرائی بھی ملی جب ن لیگی رہنماؤں کی تصاویر پیپلزپارٹی کے رنگوں کے بیچ دکھائی دے رہی تھیں۔
اس کے بعد یہی خیال تھا کہ لاہور کے جلسے میں مسلم لیگ ن یہ حساب چکتا کرے گی لیکن ایسا قطعا بھی نہیں ہو سکا۔ یہ عجیب صورت حال تھی کہ لاہور مسلم لیگ ن کا گڑھ جہاں قومی اسمبلی کی دس سیٹیں ان کے پاس ہیں لیکن شہر میں جلسے کے لیے ان کی طرف سے کسی بھی طرح کے کوئی بینر یا مہم دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
مسلم لیگ ن کے رہنما بلال یاسین نے اس عقدے سے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا ’ایسا نہیں ہے کہ مسلم لیگ ن متحرک نہیں ہے بلکہ میں تو کہوں گا کہ ہمارا بہت کچھ اس جلسے سے وابستہ ہے اور ہم اس کے لیے تیار ہیں جو سوال آپ پوچھ رہے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری توجہ ظاہری چیزوں پر نہیں، ہم جلسہ گاہ بھرنے سے متعلق سوچ رہے ہیں۔ اور ہماری ساری توجہ اس طرف ہے، اس سے ہمیں فرق نہیں پڑتا کہ سڑکوں پر کیا نظر آ رہا ہے۔‘
بلال یاسین کی وضاحت اپنی جگہ لیکن لاہور کی سڑکیں اس بات کا پتا نہیں دے رہیں کہ مسلم لیگ ن کے گڑھ میں حزب اختلاف کے بڑے اتحاد کا ایک بڑا جلسہ ہو رہا ہے جس سے پاکستان کے اگلے سیاسی راستوں کی پرتیں کھلیں گی۔
یہ جلسہ محض پی ڈی ایم کی کامیابی نہیں ہوگی بلکہ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ مریم نواز کی بھی سیاسی اہلیت کو ثابت کرے گا۔