الٹنے کی وجہ سے بس تباہ ہوگئی اور مسافر اندر پھنس گئے جنہیں نکالنے کے لیے کرین کی مدد لی گئی۔ حادثے میں زخمی ہونے والے مسافر پنجگور کے رہائشی محمد آصف نے بتایا کہ حادثہ رات دو بجے پیش آیا، انتظامیہ کے اہلکار اور ریسکیو ٹیمیں ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے پہنچیں۔
ایدھی کے مقامی انچارج عبدالحکیم لاسی نے اردونیوز کو بتایا کہ ضلعی انتظامیہ یا موٹروے پولیس کے پاس کوئی کرین موجود نہیں اس لیے نجی طور پر کرین کا بندوبست کرنے میں وقت لگا۔ ان کا کہنا تھا کہ کرین چھوٹی تھی اور بس کو اٹھا نہیں پا رہی تھی جس کی وجہ سے مسافروں کو نکالنے میں وقت لگا۔
انہوں نے بتایا کہ مرنے والوں میں پانچ خواتین اور دو بچے بھی شامل ہیں۔ لاشوں اور زخمیوں کو نکال کر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال اوتھل پہنچایا گیا۔ زخمیوں میں چار کی حالت تشویشناک ہے جنہیں مزید علاج کےلیے ٹراما سینٹر کراچی منتقل کردیا گیا۔
عبدالحکیم لاسی کے مطابق مرنے والوں میں دس کا تعلق پنجگور کے ایک ہی خاندان سے تھا۔ باقی چار افراد کا تعلق خضدار اور تربت سے تھا جن کی لاشیں آبائی علاقوں کو روانہ کردی گئیں۔
لسبیلہ میں آرسی ڈی شاہراہ پر دو ہفتوں کے دوران یہ دوسرا حادثہ ہے۔ اس سے پہلے 20 جنوری کو بیلہ کے قریب مسافر بس لیویز چیک پوسٹ سے ٹکراگئی تھی ۔ حادثے میں دو لیویز اہلکاروں سمیت آٹھ افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوئے۔
بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی کے چیئرمین نجیب یوسف زہری کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں قومی شاہراہیں دو رویہ نہ ہونے اور ٹریفک قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں افراد کی موت ہوجاتی ہے۔
ان کے بقول صرف 2020 میں مئی سے دسمبر تک بلوچستان میں قومی شاہراہوں پر آٹھ ہزار سے زائد ٹریفک حادثات پیش آئے جن میں ایک ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے جبکہ 12 ہزار تین سو افراد زخمی ہوئے۔