Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عالمی وبا کورونا نے صوبہ پنجاب میں لاکھوں طلبہ سے سکول چھین لیے

پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس کہتے ہیں کہ سرکاری سکولوں میں طلبہ کو واپس لایا جائے گا۔ (فوٹو:اے پی پی)
کورونا وبا کی شدت تو شاید آنے والے دنوں میں کم ہو جائے لیکن اس نے انسانوں کو کس حد تک متاثر کیا ہے اس کے اثرات پر بحث مدتوں جاری رہے گی۔
اگر تعلیم کے شعبے کا ہی ذکر کیا جائے تو اس میں سکول جانے والے اور بالخصوص ابتدائی جماعتوں کے بچوں کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس کے ایک حالیہ بیان کے مطابق ’پنجاب کے سرکاری سکولوں میں کورونا کے باعث چار لاکھ سے زائد طلبہ سکول چھوڑ چکے ہیں۔ اور یہ تخمینہ ابھی عارضی ہے۔ ہم نے اس وقت سکول میں حاضر ہر طالب علم کو نادرا کے ساتھ رجسڑڈ کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ ہمارے پاس درست اعداد و شمار آئیں کہ کتنے بچے سکولوں میں ہیں اور کتنے نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پچپن لاکھ طلبہ جن کی سکول جانے کی عمر ہے وہ سکول نہیں جا رہے۔‘
یہ بیان تو سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا احاطہ کرتا ہے۔ دوسری طرف پرائیویٹ سکولوں کے حالات بھی اس سے مختلف نہیں۔
پرائیویٹ سکولوں کی ایک تنظیم سرونگ سکول ایسوسی ایشن کے صدر میاں رضا الرحمن کے مطابق صرف لاہور میں تقریباََ 150 سکول صرف کورونا کی وجہ سے بند ہوئے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ’ہماری تنظیم کے اراکین پورے پاکستان میں ہیں اور میں آپ کو ایک محتاط اندازے کے مطابق بتا سکتا ہوں کہ کم از کم بیس فیصد پرائیویٹ سکولوں کے بچے کورونا کے بعد واپس نہیں آئے اور یہ ایک کرائسز کی صورت حال ہے۔‘
کورونا نے والدین کے سوچنے کے انداز بھی بدل دیے ہیں۔
سحر اقبال لاہور کی ایک سرکاری افسر ہیں انہوں نے اپنے بچے کو کورونا کے بعد واپس سکول نہیں بھیجا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’کورونا کے دنوں میں جب میرا بچہ سکول نہیں جا رہا تھا بیس بیس ہزار ماہانہ فیس میں نے بھری ہے۔ جب کہ ابھی وہ تیسری جماعت میں تھا۔ اوپر سے مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ مجھے لگا میں یہ پیسے زیادہ دے رہی ہوں تو اس کو میں نے سکول سے اٹھا لیا اور اب دوبارہ جب سکول کھلے ہیں تو وہ گھر پر ہی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔‘

کورونا کی وجہ سے بہت سے نجی سکول ہمیشہ کے لیے بند ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ’میں نے ایک استاد رکھا ہے جس کو پانچ ہزار روپے دیتی ہوں تو وہ گھر آ کر پڑھا رہا ہے۔ اور مجھے لگ رہا ہے کہ میرا بچہ پہلے سے زیادہ سیکھ رہا ہے۔‘
’ابھی یہ ایسے ہی چلے گا۔ جب مجھے لگے گا کہ دوبارہ سکول داخل کروانے کی ضرورت ہے تو کروا دوں گی۔‘
رضا الرحمٰن سمجھتے ہیں کہ اس ساری صورت حال کی ایک وجہ غیر یقینی کی صورت حال بھی ہے۔
’لوگوں کو نہیں پتا کہ دوبارہ کب کورونا کی لہر آ جائے اور سکول بند ہو جائیں وہ سمجھتے ہیں کہ آن لائن تعلیم پر وہ اتنے زیادہ پیسے خرچ نہیں کر سکتے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ پرائیویٹ سکولوں کے بچے تو چلیں گھروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں گے لیکن سرکاری سکولوں کے بچے چائلڈ لیبر کی نذر ہو رہے ہیں کیونکہ وہاں تو فیس پہلے نہ ہونے کے برابر تھی بلکہ تعلیم مفت تھی۔‘
رضا الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’کورونا نے کیا ہے یا نہیں لیکن تعلیمی اداروں کے بارے میں جو بھی پالیسی روا رکھی گئی اس نے پورے تعلیمی نظام کو بدل کے رکھ دیا ہے۔ لوگوں کے تعلیم کے بارے میں نظریات بھی بدل گئے ہیں۔ نہیں پتا کہ اب دوبارہ حالات کب پہلے والی سطح پر آئیں گے، آئیں گے بھی یا نہیں۔‘

لاہور کے سید اصغر برسوں سے اپنا سکول چلا رہے تھے لیکن اب اس کو بند کر کے نوکری کی تلاش میں ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم صوبائی وزیر تعلیم مراد راس سمجھتے ہیں کہ کم از کم سرکاری سکولوں میں طلبہ کو پھر واپس لایا جائے گا۔ ’ہم ایک جامع پالیسی مرتب کر رہے ہیں اور رواں سال نئے تعلیمی سال کے آغاز پر دس لاکھ نئے بچوں کو سکول لائیں گے۔ اور اب کی بار ہمارے پاس ہر بچے کا ریکارڈ بھی ڈیجیٹل ہوگا۔‘
لیکن بہت سے نجی سکول کورونا کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے بند ہو چکے ہیں۔
لاہور کے سید اصغر کئی برس سے اپنا نجی سکول چلا رہے تھے لیکن اب اس کومستقل طور پر بند کر کے خود نوکری کی تلاش میں ہیں۔
انہوں نے اردونیوز  کو بتایا کہ ’میرے سکول میں طلبہ کی تعداد ڈیڑھ سے دو سو تک رہتی تھی۔ یہ ایک اچھا پراجیکٹ تھا۔ لیکن جب کورونا کی پہلی لہر آئی تو کسی نہ کسی طریقے سے ہم نے اپنے آپ کو بچا لیا۔ بچے گھروں میں بیٹھ گئے اور ہم نے ان کو آن لائن تعلیم دی۔‘

سرونگ سکول ایسوسی ایشن کے صدر میاں رضا الرحمن کے مطابق صرف لاہور میں کورونا کے باعث 150 سکول بند ہو چکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

سید اصغر نے بتایا کہ ’جب سکول دوبارہ کھلے تو ان میں سے سو بچے سکول واپس آئے۔ اور ایک دو مہینے کے بعد سکول دوبارہ بند ہو گئے۔ جس کی بلڈنگ میں نے سکول بنایا تھا اس کا ماہانہ کرایہ ایک لاکھ روپے تھا۔ والدین نے فیسیں دینا بند کر دیں، مالک مکان نے کرایہ نہیں چھوڑا، جو اساتذہ رکھے ہوئے تھے وہ بھی چلے گئے کیوں کہ ان کی تنخواہیں بھی ادا نہیں ہو رہی تھیں۔ اور پھر مجھے سکول بند کرنا پڑا۔‘
سید اصغر کا کہنا تھا کہ اب میں خود نوکری ڈھونڈ رہا ہوں۔ لیکن کوئی بھی سکول مجھے استاد کی نوکری نہیں دے رہا۔ میری عمر بھی 55 سال ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر نوکری دی تو کہیں کچھ عرصے بعد یہ ہمارے بچے ہی اپنے سکول نہ لے جائے۔ میری ساری زندگی تعلیم کے شعبہ سے وابستہ رہی ہے. اب میری اہلیہ کی ایک مختصر آمدن سے گھر چل رہا ہے اور میں خود ایک استاد کی نوکری کی تلاش میں ہوں۔‘

شیئر: