Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جدہ کی تاریخی مساجد اور ان کی وجہ شہرت

الشافعی مسجد میں تازہ ہوا کا منفرد انتظام ہے- فوٹو ایس پی اے
عروس البلاد ’جدہ‘ کو ساحلی شہر ہونے کی وجہ سے دنیا بھر سے سمندری راستے کے ذریعے تجارتی قافلوں کی آمد ورفت جدہ کی بندرگاہ کے ذریعے ہی ہوتی ہے جبکہ یہ اس شہر کو حرمین شریفین کا دروزہ بھی اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں مقدس شہروں کے درمیان میں واقع ہے۔ 
جدہ میں آج بھی عہد رفتہ کی یادیں سمیٹے ہوئے قدیم مساجد اورعمارتیں موجود ہیں جن کو تعمیر ہوئے سینکڑوں برس بیت چکے ہیں۔ 
شہر کے قدیم علاقے ’البلد‘ کے مختلف محلوں میں ایسی مسجد بھی ہے جو سال 9 یا دس ہجری میں تعمیر کی گئی تھیں۔ ایک تحقیق کے مطابق جدہ کے تاریخی علاقے میں مسجد عثمان بن عفان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سال ہجری 9 یا دس میں تعمیر کی گئی تھی۔ 

یہ باب مکہ اور سوق علوی کو جوڑنے والی سب سے قدیم اور تاریخی مسجد ہے-

مسجد عثمان بن عفان کا دوسرا نام ’مسجد الابنوس‘ اس مسجد کو ’الابنوس‘ کے نام سے اس لیے بھی یاد کیا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر میں ستونوں کی جگہ ابنوس کی لکڑی کا استعمال کیا گا تھا اور اس کی تعمیر سال ہجری 9 اور دس کے درمیان کی گئی تھی۔ 
جدہ کے تاریخی محلے کے علاقے ’حارۃ المظلوم‘ میں سترہویں صدی کی تعمیر کی گئی مساجد میں آج بھی پانچ وقت کی نماز ادا کی جاتی ہے جن میں مسجد الشافعی بھی ایک ہے۔
اس مسجد کی تعمیر میں ہوا کی آمد و رفت کا خصوصی خیال رکھتے ہوئے مخصوص دریجے بنائے گئے تھے تاکہ روشنی اور ہوا کی آمد ورفت کا بہترین انتظام رہے۔
مسجد کی تعمیر سمندری گیلی مٹی اور زیر زمین سے کھود کر نکالے گئے مخصوص پتھروں کا استعمال کیا گیا تھا۔ 
’حارۃ الشام ‘ محلے میں ’الباشا مسجد‘ کافی مشہور ہے۔ اس مسجد کی شناخت اس کے آذان دینے کے لیے بنائے گئے خصوصی ممبر ہیں جو اس وقت کے انتہائی جدید  ممبرز میں شمار ہوتے تھے۔  

الباشا مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس تاریخی مسجد کی ترمیم 1978 میں کی گئی اس وقت تک اس مسجد کی قدیم تعمیر ہی برقرار تھی۔
تاہم وقتاً فوقتاً اس مسجد کی اصلاح و مرمت کا کام ہوتا رہا تھا مگر سال 1978 میں اسی قدیم طرز پر اسے دوبارہ تعمیر کیا گیا جو اس کی اصل طرز تعمیر تھی۔ 

مسجد الرحمہ ساحل پر اس طرح تعمیر کی گئی ہے کہ آدھی مسجد سمندر کے اوپر ہے: (فوٹو ایس پی اے)

جدہ کے قدیم علاقے میں ایک اور تاریخی مسجد المعمار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر 340 برس قبل کی گئی تھی۔ 
عہد جدید کی مساجد  
شہر جدہ میں جہاں قدیم مساجد کی کثرت ہے وہاں عہد جدید کی مساجد بھی اپنے فن تعمیر اور کشادگی کے اعتبار سے مثالی ہیں۔
 ان مساجد میں ’مسجد التقوی ، مسجد خادم حرمین شریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز ، مسجد شہزادہ ماجد بن عبدالعزیز یہ مسجد فلسطین روڈ کے سنگم پر ہے اپنی مثالی طرز تعمیر کے باعث اسے تعمیراتی شاہکار بھی کہا جاتا ہے۔ 

مسجد العنانی جس کی تعمیر ستارہ کی طرز پرکی گئی اسے مسجد ’نجمہ بغداد‘ بھی کہا جاتا ہے۔ دور سے دیکھنے میں یہ مسجد ستارہ کی شبیہ دیتی ہے۔ 
مسجد الرحمہ ساحل پر اس طرح تعمیر کی گئی ہے کہ آدھی مسجد سمندر کے اوپر ہے۔ اس مسجد کی وجہ شہرت یہی ہی کہ اس کی تعمیر ستونوں پر کی گئی جو ساحل پر تفریح کے لیے آنے والوں کے لیے ایک مثالی تحفہ ہے۔ 

شیئر: