یہ تبصرے اس وقت سامنے آئے جب شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب گیئر پیڈرسن نے ملک میں ہونے والی تازہ ترین پیش رفت سے سلامتی کونسل کو آگاہ کیا۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ یہ انتخابات اقوام متحدہ کی قرارداد 2254 کی شرائط کو پورا کرنے میں ناکام رہے، جس میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی، ایک نئے آئین، شفافیت اور احتساب کے اعلیٰ ترین بین الاقوامی معیار کے مطابق آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور اس کے مطابق دیگر ممالک میں مقیم مہاجرین سمیت تمام شامی باشندے ووٹ دے سکتے ہیں۔
پیڈرسن نے کہا کہ ’اقوام متحدہ بدھ کو ہونے والے انتخابات میں شریک نہیں اور اس کا کوئی مینڈیٹ نہیں۔‘
ان کے مطابق اقوام متحدہ شام میں سیاسی حل کے لیے قرارداد 2254 پرعمل درآمد کے لیے بات چیت کی اہمیت پر زور دیتا رہے گا، یہ شام کے تنازع اور عوام کے دکھوں کو ختم کرنے کا واحد پائیدار راستہ ہے۔
جنگ زدہ ملک شام کی تازہ سیاسی اور انسانی صورت حال کے بارے میں سفیرکا کہنا ہے کہ شامی عوام بڑے پیمانے پر مسلسل تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق ’مجھے اندیشہ ہے کہ اس طرح کے واقعات اور حرکات کا سلسلہ وہاں کے رہائشیوں کو مزید گہری کھائی کی جانب دھکیل رہا ہے۔‘
انہوں نے اس امر کی ضرورت پر زور دیا کہ شام کے زیرقیادت سیاسی حل پیش کیا جائے جسے اقوام متحدہ کے ذریعے آسان بنایا جائے اور اسے بین الاقوامی تعمیری سفارت کاری کی حمایت حاصل ہو۔
پیڈرسن نے کہا کہ پانی کی شدید قلت اور اشیائے خورونوش کی تاریخی گرانی جیسی صورت حال ایک فوری حل طلب مسئلہ ہے۔
پیڈرسن کے تبصروں کی گونج اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے سربراہ مارک لوکاک کے خطاب میں بھی سنائی دی۔ انہوں نے انتباہ کیا کہ ’سرحد پار سے آپریشن کا کوئی متبادل نہیں بنایا جا سکتا جو 30 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی زندگی کے لیے ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کونسل کی طرف دیکھتے ہیں کہ اس لائف لائن کو ختم نہیں کیا جائے گا۔‘
پیڈرسن نے کونسل ممبران سے اپیل کی کہ وہ سرحد پار کے طریقہ کار سے متعلق اتفاق رائے بنائیں اور باب السلام اور یاروبیہ کراسنگ کو مزید 12 ماہ کے لیے دوبارہ بااختیار بنائیں تاکہ امداد لاکھوں لوگوں تک پہنچ سکے۔
انہوں نے انتباہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’تنازع کے سیاسی حل کے وسیع خدوخال کو تمام کلیدی سٹیک ہولڈرز اچھی طرح سمجھتے ہیں پھر بھی کوئی پہلا قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔‘
ان کے مطابق اگر کلیدی رہنما تنازع حل کرنے کی بجائے تنازع کے اہتمام میں زیادہ سرمایہ کاری کریں گے تو ڈر ہے کہ یہ تنازع نسل در نسل چلتا رہے گا۔
سلامتی کونسل میں روس کے نمائندے نے شام کے صدارتی انتخابات پر ہونے والی تنقید کی مذمت کرتے ہوئے، اس کو شامی ووٹرز کو نظراندازکیے جانے کے مترادف قرار دیا جبکہ دیگر ممبران نے متحدہ طور پر شامی صدارتی انتخابات کو مسترد کیا ہے۔
آئرلینڈ کے مستقل مندوب جیرالڈائن شامی حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی ضد ختم کرے وہ آئینی کمیٹی کے کام میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ فرانسیسی ایلچی نکولس نے انتخابات کو کالعدم قرار دیا۔
اقوام متحدہ میں برطانیہ کے نائب سفیر جوناتھن ایلن نے بشار الاسد کی آمریت کو برقرار رکھنے کے لیے تیار کردہ انتخابی عمل کو بہروپی مشق قرار دیتے ہوئے کہا کہ شامی حکومت سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 2254 کے تقاضوں کو پورا کرنے کے قریب نہیں پہنچی۔
اقوام متحدہ کے باقی ممبران کے مطابق شامی انتخابات ایک بیہودہ مذاق ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی نائب نمائندے رچرڈ ملز نے انتخابات کو جمہوریت اور شام کے عوام کی توہین قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر جنگ بندی پر عمل پیرا ہونے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ ’اگر ہم تمام بارڈر کراسنگز دوبارہ نہیں کھولتے تو لوگ مر جائیں گے۔‘