اسرائیل نے ڈیلٹا ویریئنٹ پھیلاؤ کے باعث حکمت عملی بدل دی
اسرائیل نے ڈیلٹا ویریئنٹ پھیلاؤ کے باعث حکمت عملی بدل دی
منگل 13 جولائی 2021 16:13
نرم دباؤ کی پالیسی کے تحت اس نئے وائرس کے ساتھ رہنا سیکھیں۔(فوٹو یوایس نیوز)
اسرائیل چار ہفتے قبل کورونا سے اپنی جنگ کے بعد معمول کی زندگی کی طرف واپسی کا جشن منا رہا تھا۔
روئٹرز نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یہاں جاری کورونا ویکسینیشن کی تیز رفتار مہم کے ذریعے عالمی وبائی مرض کے انفیکشنز اور اس کے باعث ہونیوالی اموات میں کمی آ گئی تھی۔
یہاں پر بسنے والوں نے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے چہرے پر ماسک لگانا اور سماجی دوری قائم رکھنے کے تمام قوانین بھی ترک کردیے تھے۔
اس کے بعد کیا ہوا کہ زیادہ متعدی ڈیلٹا ویریئنٹ آگیا اور ایسے کیسزسامنے آئے کہ نئے وزیراعظم نفتالی بینیٹ کو کچھ پابندیاں دوبارہ عائد کرنے اور حکمت عملی پر نظر ثانی کے لیےمجبور ہونا پڑا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ نرم دباؤ کی پالیسی کے تحت اس نئے وائرس کے ساتھ رہنا سیکھیں جس میں ممکنہ حد تک محدود پابندیاں اور چوتھے قومی لاک ڈاون سے بچنا شامل ہے۔‘
نئے وزیر اعظم نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ لاک ڈاؤن کے باعث معیشت کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ نئی حکمت عملی اپنانے میں کچھ خطرات لاحق ہوں گے لیکن معاشی عوامل سمیت مجموعی صورتحال میں یہ توازن ضروری ہے۔
اس وقت مختلف ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد تقریباً 45 کے قریب ہے۔
نئی حکمت عملی پر عملدرآمد میں دوبارہ کورونا ٹیسٹ میں تیزی، ماسک لگانا، ویکسی نیشن کے لیے حوصلہ افزا مہم شامل ہے۔
اس حکمت عملی میں برطانوی حکومت کے انگلینڈ کی معیشت کو دوبارہ لاک ڈاؤن سے محفوظ رکھنے کے منصوبوں سے موازنہ کیا گیا ہے حالانکہ اسرائیل کچھ پابندیاں بحال کرنے کے عمل میں ہے جبکہ لندن پابندیاں ختم کررہا ہے۔
یہاں جو پابندیاں بحال کی گئی ہیں ان میں گھر کے اندر ماسک پہننا لازمی ہے نیز اسرائیل پہنچنے والے تمام افراد کے لیے قرنطینہ کرنا بھی ضروری ہے۔
برطانوی حکومت کی طرح نفتالی بینیٹ کی حکمت عملی پر بھی کچھ سائنس دانوں نے سوال اٹھایا ہے۔
اسرائیل کی وزارت صحت میں شعبہ صحت عامہ کی سربراہ شیرون الروئی پریز نے ریڈیو کو بتایا ہے کہ ’ہماری وزارت کورونا انفیکشن سے بچاؤ کے لیے مزید دباؤ کی حمایت کرتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ممکن ہے کہ شدید متاثر افراد کی تعداد میں بڑا اضافہ نہ ہو لیکن ایسی غلطی کرنے کی سوچ ہی ہمیں پریشان کر رہی ہے۔بہت سے دیگر سائنس دان ان کی اس بات کی حمایت کرتے ہیں۔‘
اسرائیل کی بین گوریون یونیورسٹی کے سکول برائے پبلک ہیلتھ کے ڈائریکٹر نادیو ڈیو ڈوچ نے کہا ہے کہ ’میں اسرائیل کے اس طرز عمل کے حق میں ہوں۔‘
انہوں نے اسرائیلی حکمت عملی کوبرطانیہ کی پابندیوں میں نرمی اور آسٹریلیا جیسے ممالک کی سخت پالیسی کے مابین ایک سنہری راستہ قرار دیا ہے۔
کورونا کے یومیہ نئے کیسز450 کے لگ بھگ ہیں۔ ڈیلٹا ویریئنٹ، کورونا وائرس کی تبدیل شدہ حالت ہے جو سب سے پہلے انڈیا میں شناخت کی گئی تھی ۔ اب 90 فیصد کیسز اسی ڈیلٹا ویریئنٹ پر مبنی ہوتے ہیں۔
اسرائیل کی 9.3 ملین آبادی کے تقریباً 60 فیصد افراد کو فائزر/ بایونٹیک ویکسین کی کم از کم ایک خوراک مل چکی ہے۔
اتوارکو حکومت نے کمپرومائزڈ مدافعتی نظام والے لوگوں کو تیسری خوراک پیش کرنا شروع کی ہے۔
کوویڈ 19 میں حکومت کے ماہر پینل کی ذمہ دار ران بیلیشر نے کہا ہےکہ ڈیلٹا کے اثرات کو نوٹ کرتے ہوئے ہماراپینل پابندیوں کے خاتمے پر احتیاط کا مشورہ دے رہا ہے۔
کچھ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ فائزر/ بایونٹیک ویکسین، دیگر کورونا وائرس کے مقابلہ میں ڈیلٹا ویریئنٹ کے خلاف تاثیر کم ہے۔
فائزر اور بایونٹیک نے کچھ سائنس دانوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد کہا ہے کہ وہ امریکہ اور یورپی ریگولیٹرز سے بوسٹر شاٹس فراہم کرنے کی اجازت دینے کے لئے کہیں گے۔
کورونا وائرس کا انجکشن لگانے کے چھ ماہ بعد انفیکشن کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
اسرائیل کوعوامی بوسٹر شاٹس کی منظوری کے لیے کوئی جلدی نہیں۔ ایسا کوئی ڈیٹا سامنے نہیں آیا جو بوسٹر شاٹس کو ضروری قرار دیتا ہو۔
صرف کمزور مدافعتی نظام والے لوگوں کو اس کی منظوری دی جا رہی ہے۔
حکام 12 سال سے کم عمر بچوں کو ویکسین لگانے کی اجازت دینے پر بھی غور کر رہے ہیں۔ اگر وہ صحت سے متعلق ایسی حالت میں مبتلا ہوں کہ جن کے باعث صحت کو سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ لاحق ہو تو انہیں کورونا ویکسین دی جا سکے گی۔
اسرائیل کے 5.5 ملین افراد میں سے صرف چند سو افراد ہی کورونا سے متاثر ہوئے ہیں۔
ڈیلٹا ویریئنٹ سے قبل اسرائیلی ڈیٹا کے مطابق 75فیصد آبادی کو 'ہرڈ امیونٹی' تک پہنچنے کے لیے ویکسینیشن کی ضرورت ہوگی تاہم ڈیلٹا کے بعد یہ تناسب 80 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔
تل ابیب کے قریب شیبہ میڈیکل سنٹر میں کورونا وائرس وارڈ کے سربراہ ڈاکٹر گیڈی سیگل نے کہا ہے کہ وائرس ختم نہیں ہوگا۔ یہ رہتا ہے یہ اس کی فطرت ہے لیکن ہماری فطرت زندہ رہنا ہے۔