سعودی سینٹرل بینک (ساما) کی ماہانہ شماریاتی رپورٹ میں ساما کے بلز اور دوبارہ خریداری کے معاہدوں میں کمی کا انکشاف ہوا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ماہر معاشیات محمد الرمادی کے مطابق ’یہ ایک اچھی علامت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بینک اپنے اضافی ذخائر کو راتوں رات ساما میں رکھنے کے بجائے ساما سے باہر زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔‘
ساما کے ریزرو اثاثوں کے حوالے سے خصوصی ڈرائنگ رائٹس میں 160 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ یہ سعودی عرب کی تھرڈ پارٹی ممالک کی مدد کے لیے’بڑی شراکت‘ کی عکاسی کرتا ہے۔
ساما کے اعداد و شمار نے مالیاتی سروے میں تبدیلیاں بھی ظاہر کیں جو تمام اداروں اور ساما کی مجموعی بیلنس شیٹ ہے۔
ساما نے انکشاف کیا ہے کہ کمرشل بینکوں کے خالص غیر ملکی اثاثے 8.16 فیصد اضافے سے اگست میں 58.43 بلین ریال تک پہنچ گئے۔
حکومت پر بینک کے دعوے اگست میں 10.74 بلین ریال اضافے کے ساتھ 465.32 بلین ریال تک پہنچ گئے جو 2.36 فیصد شرح نمو کی عکاسی کرتا ہے۔
مزید یہ کہ غیر مالی پبلک سیکٹر انٹرپرائزز پر بینک کے دعووں میں 5.25 فیصد اضافہ ہوا جو جولائی میں88.43 بلین ریال سے بڑھ کر اگست میں 93.07 بلین ریال ہو گیا۔ اس کے برعکس نجی شعبے پر بینک کے دعوے میں اضافہ ہواہے جو کہ شرح نمو میں 0.56 فیصد ہے۔
ماہر معاشیات محمد الرمادی کا کہنا ہے کہ ’قرضوں کے نمونوں میں ان تبدیلیوں کی وضاحت سعودی کمرشل بینکوں کے نئے سرکاری منصوبوں میں دلچسپی سے کی جاسکتی ہے بشمول دی ریڈ سی ڈویلپمنٹ کمپنی اور نیوم پروجیکٹس۔‘
ساما کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار نے اگست کے لیے بینکوں کے باہر ڈیمانڈ ڈپازٹس اور کرنسی دونوں میں بالترتیب 5.33 اور 4.03 بلین ریال کی کمی ظاہر کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ عرصہ لوگوں کی ترجیحات میں تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے جس کے تحت وہ کرنسی اور کم آمدنی والے وقت کے ذخائر پر زیادہ سود کمانے والے ذخائر کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ذخائر میں یہ اضافہ سرکاری شعبے کو قرض دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔
الرمادی کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ مرکزی بینک کا مجموعی اثاثہ ڈھانچہ بہت زیادہ تبدیل نہیں ہوا ہے،سب سے بڑی تبدیلی بیرون ملک بینکوں کے پاس بینک کے ذخائر میں تھی جہاں اس میں 19.78 بلین ریال کا اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مائع اور زیادہ کمانے کا آپشن ہے۔
تاہم مرکزی اداروں کے پاس سرکاری اداروں کے ذخائر میں تقریباً 30 بلین ریال کا اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ یہ اس حقیقت کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ وہ زیادہ آمدنی حاصل کر رہے ہیں کیونکہ کورنا کی وبا کے اثرات کم ہونے لگے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ زکواۃ، انکم ٹیکس اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس آمدنی میں اضافے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔