’صلاحیتوں میں کمی نہیں شاید ناظرین کے لیے پُرکشش نہیں ہوں‘
’صلاحیتوں میں کمی نہیں شاید ناظرین کے لیے پُرکشش نہیں ہوں‘
اتوار 3 اکتوبر 2021 8:43
عنبرین تبسم، لاہور
تھیٹر کی بہترین اداکارہ سمجھی جانے والی کیف غزنوی آج کل ڈرامہ سیریل ’ہم کہاں کے سچے تھے‘ میں ایک گھریلو ملازمہ کے کردار میں نظر آرہی ہیں۔ ان کا یہ کردار بظاہر تو معمولی سا ہے لیکن انہوں نےاپنے چہرے کے تاثرات اور ڈائیلاگز کی ادائیگی سے اس کردار کو غیرمعمولی بنا دیا ہے۔
کیف غزنوی نے ’شبو‘ کے کردار کے لیے ہامی کیوں بھری اور اتنے عرصے سے ڈراموں میں اداکاری کرنے کے باوجود وہ ابھی تک مرکزی کردار میں کیوں نظر نہیں آئیں، یہ جاننے کے لیے اردو نیوز نے ان سے خصوصی بات چیت کی ہے۔
کیف غزنوی سے جب یہ پوچھا گیا کہ انہوں نے شبو کا کردار کیوں منتخب کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’مجھ سے پوچھا جا رہا ہے کہ ایک نوکرانی کا کردار کیوں منتخب کیا تو شبو کا کردار واقعی بہت چھوٹا تھا، جب مجھے اس کا سکرپٹ آفر ہوا تھا تو مجھ سے آٹھ دن مانگے گئے تھے اور پھر پورا مہینہ ہم نے شوٹ کیا کیونکہ کردار بڑھتا چلا گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ کردار اس لیے بڑھا کیونکہ جب (ڈائریکٹر) فاروق رند نے مجھے اس کریکٹر کے لیے رابطہ کیا تھا دراصل انہوں نے میرا ایک تھیٹر پلے جزا سزا دیکھا تھا، تو وہاں انہوں نے مجھے دیکھا وہ مجھ سے ملنا چاہتے تھے۔ اور پھر انہوں نے مجھے شبو کا کریکٹر آفر کیا۔
کیف کے بقول ’فاروق رند کے ساتھ جنہیں چھوٹے سے چھوٹا کردار بھی ملے گا وہ بھاگے ہوئے جائیں گے کیونکہ ان کے کام کا طریقہ ہی ایسا ہے تو اس لیے میں نے شبو کی ہامی بھری۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ وہ ٹی وی ڈراموں میں کبھی مرکزی کردار میں کیوں نظر نہیں آئیں، کیف غزنوی کا کہنا تھا کہ ’مجھے خود بھی یہ سمجھ نہیں آیا کہ کیوں ٹی وی سے مرکزی کردار میرے پاس نہیں آئے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ آپ کی قسمت پہ ( منحصر) ہے۔‘
ان کے بقول ’کافی لوگ جانتے ہیں کہ میں گا بھی لیتی ہوں، رقص بھی کرنا آتا ہے، میں اداکاری بھی کر سکتی ہوں۔ جب کسی انسان میں یہ تینوں لوازمات ہوں تو ہو سکتا ہے کہ میں ٹیلی ویژن کو سوٹ نہ کر رہی ہوں، انہیں سمجھ ہی نہ آ رہا ہو کہ مجھے استعمال کس طرح سے کریں۔‘
کیف کہتی ہیں کہ ’ہو سکتا ہے میری شخصیت لوگوں کی من چاہی نہ ہو تو کوئی پروڈیوسر کیوں میرے اوپر پیسہ لگائے گا۔ صلاحیتوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کوئی کمی نہیں ہے لیکن ہو سکتا ہے میں ناظرین کے لیے اتنی پُرکشش نہیں ہوں۔‘
کیف غزنوی تھیٹر کی ایک منجھی ہوئی اداکارہ بھی ہیں جبکہ حال ہی میں ان کی شارٹ فلم ’اندھا‘ جس میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا تھا، کو آسٹریلیا میں منعقد ہونے والے پہلے پاکستان فلم فیسٹیول میں تین ایوارڈز ملے۔
کیف سمجھتی ہیں کہ ’تھیٹر کے اداکار کو جو بھی کردار دیا جاتا ہے وہ اس کردار میں گھس جاتا ہے اور جب وہ اسے نبھاتا ہے تو چھوٹے سے چھوٹے کردار میں بھی لوگوں کو نظر آئے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تھیٹر میں پیسہ تو زیادہ ہے نہیں لہذا یہاں لوگ اداکاری کے جنون کی وجہ سے آتے ہیں تھیٹر کا آرٹسٹ آپ کو ٹی وی اور فلم میں ملے گا لیکن ٹی وی کا آرٹسٹ آپ کو تھیٹر میں کم ہی ملے گا۔‘
ڈرامہ ’ہم کہاں کے سچے تھے‘ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کیف غزنوی نے کہا کہ ’بظاہر دیکھا جائے تو ایسے خاندان کی کہانی ہے جس میں دو لڑکیاں ایک لڑکے کے پیچھے حسد میں پریشان حال ہو گئیں لیکن آج جب وہ ان ایئر گیا ہے تو ذہنی صحت پہ بات ہو رہی ہے، ماں باپ کے بچوں کی زندگی پر حاوی ہو کر ان کی زندگی کو خراب کر دینا اس سب پر بات ہو رہی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جب میں نے یہ کہا ماں باپ بچوں کو اپنا تمغہ بنا کر پیش کرنا چھوڑیں، ہم بچوں کو اپنا عکس بنا کر اس دنیا نہیں بڑا کر سکتے۔ یہ باتیں لوگوں تک پہنچیں تو بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ ہم ناامید تھے اور آپ کی اس بات نے ہمیں امید دی کہ چلیں کوئی تو ہماری بات کو سمجھ رہا ہے، تو جب میں کچھ ڈائریکٹ کروں گی تو اس کا اثر بھی اتنا زیادہ ہوگا اس لیے میں سوچ سمجھ کر کروں گی۔‘
کیف غزنوی نے بتایا کہ ’میں شارٹ فلمیں پرڈیوس اور ڈائریکٹ کررہی ہوں، نوجوان لکھاریوں کو جب کہتی ہوں کہ کام دکھائیں تو وہ بھاگ جاتے ہیں اس لیے مجھے خود لکھنا پڑ رہا ہے۔ ہدایتکاری کے ساتھ لکھنا اور اداکاری کرنا زرا سستا پڑ جاتا ہے اور پھر مارکیٹ میں حوصلہ افزائی بھی ہوجاتی ہے۔‘
کیف غزنوی کو اپنے ایک انٹرویو کی وجہ سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا جس میں انہوں نے شادی کے بعد لڑکیوں کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانے پر اعتراض کیا تھا، اس بیان کے حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا تو کیف نے بتایا کہ ’میں نے بالکل یہ بات کہی تھی لیکن جس تناظر میں کہی تھی وہ پوری طرح نہیں بیان کیا گیا۔ میں نے یہ کہا تھا کہ میرے پاس یہ چوائس ہے تو میں نے نام نہ بدلنا بہتر سمجھا۔ میں اس وقت اپنی آزادی کے انتخاب کی بات کر رہی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے باپ کا نام میرے ساتھ جڑا ہوا ہے، اس کا میری شخصیت پر بہت ہے۔ راتوں رات میں اس کو بدل لوں گی اور ایک دم سے کیف غزنوی سے کیف ذنشان ہوجاﺅں گی تو مجھے عرصہ لگے گا تو لوگوں کو جواب دینے میں کیونکہ میں ایک پروفیشنلی بھی کام کرتی ہوں۔ کوئی مجھے کیف غزنوی سے کیف ذیشان پکارے گا تو مجھے مجھے اجنبی سا لگے گا تو میں کیوں اس پریشانی سے گزروں۔‘