Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زندگی کے اُتار چڑھاؤ اور پرویز مشرف کے ساتھ تنازع  

سال 1936 میں انڈیا کے شہر بھوپال میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبد القدیر خان کا تعلق پشتون خاندان اورکزئی سے تھا۔ ان کے بہن بھائی 1947 میں ہی انڈیا سے پاکستان ہجرت کر چکے تھے تاہم ڈاکٹر اے کیو خان انڈیا میں 1951 سے اپنے والدین کے ہمراہ ہجرت کر کرکے پاکستان منتقل ہوئے۔
ابتدائی طور پر ڈاکٹر خان نے کراچی میں میٹرو پولیٹن کارپوریشن میں ملازمت اختیار کی جس کے بعد وہ سکالرشپ کے تحت اعلی تعلیم حاصل کرنے جرمنی اور پھر ہالینڈ سے مٹیریل ٹیکنالوجی میں ایم ایس اور بعدازاں انہوں نے بیلجیئم میں میٹلرارجیکل انجنیئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔  
پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں اور سیکیورٹی پالیسی کے حوالے سے کتاب لکھنے والے فیروز خان اپنی کتاب ’ایٹنگ گراس: دی میکنگ آف پاکستانی بم‘ میں لکھتے ہیں کہ 1972 میں جب انڈیا نے ایٹمی ہتھیار کا کامیاب تجربہ کیا تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس سلسلے میں اپنی خدمات پیش کیں اور حکومت پاکستان کو خطوط ارسال کیے۔ انہوں نے 1974 میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اس حوالے سے دو خطوط ارسال کیے جس کے بعد انہیں وزیراعظم سے ملاقات کے لیے اسلام آباد بلایا گیا۔   
اس ملاقات کے بعد اے کیو خان دو سال تک ہالینڈ میں ہی رہے اور 1976 میں باضابطہ طور پر پاکستان ایٹمی بم کے منصوبے میں شامل ہوئے۔   
سال 1979 میں ہالینڈ کی حکومت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر جاسوسی کے الزامات کے حوالے سے مقدمہ بھی چلایا، جس میں ان پر عدم پیشی کی بنیاد پر قید کی سزا اور جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ بعدازاں عدالت نے ان کی اپیل پر سزا کے ثبوت کی عدم دستیابی کی بنا پر سزا واپس کر لی۔   

سابق صدر پرویز مشرف نے ڈاکٹر خان پر دباؤ ڈالتے ہوئے سرکاری ٹیلی ویژن پر ان سے معذرت کروائی تھی۔ فائل فوٹو: پی ٹی وی

صحافیوں سے ملاقاتوں کا شوق اور سوشل ورک

ڈاکٹر عبد القدیر خان سوشل ویلفیئر کے کاموں کے لیے بھی جانے جاتے تھے اور متعدد غیر سرکاری تنظیموں اور سوشل ورک کے کام میں پیش پیش ہوتے۔ وہ صحافیوں اور لکھاریوں سے میل ملاقاتوں سے کبھی نہیں کترائے۔ وہ مقامی صحافیوں سے ایسی باتیں بھی کر جاتے جو حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بھی بن جاتیں۔ یہی وجہ تھی کہ 1979 میں اس وقت کے صدر ضیا الحق پاکستان کے جوہری پروگرام کو خفیہ رکھنے کے خواہاں تھے اور ڈاکٹر اے کیو خان کی مقامی صحافیوں سے ملاقاتیں صدر ضیا کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں۔   
انڈیا کے نامور صحافی کلدیپ نئیر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ ہونے والی ملاقات کا احوال لکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’1979 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مقامی صحافیوں سے ملاقات میں یہ بیان دیا تھا کہ امریکہ کو علم ہے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام کتنا کامیاب ہے۔‘ ان کے اس بیان پر سابق صدر ضیا الحق نے انہیں ملاقات کے لیے بلایا اور سخت لہجہ استعمال کرتے ہوئے انہیں یہ بیان واپس لینے کی ہدایت کی، جس کے بعد ڈاکٹر اے کیو خان نے چند صحافیوں سے رابطہ کر کے بیان پر وضاحت جاری کی۔  
ڈاکٹر اے کیو خان کو 1989 میں ہلال امتیاز اور 1996 میں نشان امتیاز سے نوازا گیا۔   
سال 1998 میں جوہری ہتھیاروں کے کامیاب تجربے کے بعد 1999 میں ایک بار پھر نشان امتیاز سے نوازا گیا۔  

ڈاکٹر عبدالقدیر خان سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں مشیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عہدے پر فائض رہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سابق صدر پرویز مشرف کے ساتھ تنازع  

ڈاکٹر عبدالقدیر خان سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں مشیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عہدے پر فائض رہے تاہم امریکی صدر جارج ڈبلیو بش انتظامیہ کی جانب سے 2003 میں ڈاکٹر اے کیو خان پر یورینیم دیگر ممالک کو فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے۔   
سابق صدر پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبد القدیر خان پر دباؤ ڈالتے ہوئے سرکاری ٹیلی ویژن پر ان سے معذرت کروائی جس کے بعد ان کے خلاف باضابطہ انکوائری کا آغاز کیا گیا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔   
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے حوالے سے ان پر دباؤ ڈال کر اعترافی بیان دلوایا گیا اور انہیں ’اسٹیبلیشمنٹ کی طرف سے قربانی کا بکرا بنایا گیا۔‘  
سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں انہوں نے اپنے گھر میں نظر بند ہو کر ہی زندگی گزاری جبکہ 2012 میں انہوں نے ایک سیاسی جماعت تحریک تحفظ پاکستان کی بنیاد رکھی۔
تاہم 2013 کے انتخابات میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی جس کے بعد ڈاکٹر اے کیو خان نے اپنی سیاسی جماعت تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا۔
ڈاکٹر خان نے زندگی کے آخری سال اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر ہی گزارے اور گذشتہ چند سال سے ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ تھم چکا تھا۔ 

شیئر: