کیا اتحادیوں نے تحریک انصاف کی حکومت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے؟
کیا اتحادیوں نے تحریک انصاف کی حکومت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے؟
جمعہ 12 نومبر 2021 5:34
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمجھتے ہیں کہ حکومت اپنے نمبر کھو چکی ہے (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان میں ایک مرتبہ پھر سیاسی میدان میں ہلچل ہے۔ حکومت کی جانب سے بلائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو موخر کردیا گیا ہے جس کو چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے اپوزیشن کی ’مشترکہ‘ حکمت عملی سے تعبیر کیا ہے۔
بلاول بھٹو نے بدھ کو ٹویٹ میں کہا کہ ’آج پارلیمان میں متحدہ اپوزیشن کو ایک اور کامیابی ملی، جب ایک اور شکست نظر آئی تو حکومت نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے راہ فرار اختیار کرلی۔ کپتان بھاگ گیا۔‘
خیال رہے کہ حکومت نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس قانون سازی کے لیے بلایا تھا جس میں توقع کی جارہی تھی کہ وہ 20 بلز اس اجلاس میں پیش کریں گے، تاہم آخری وقت میں صدارتی دفتر نے اس مشترکہ کو سیشن بلانے کا نوٹی فیکیشن واپس لے لیا۔
ایسے میں یہ چہ مگوئیاں زوروں پر ہیں کہ حکومت کے پاس اپنے اتحادیوں کی سپورٹ بھی نہیں تھی اس لیے یہ اجلاس واپس لیا گیا۔
اردو نیوز نے حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے ایم این اے اور وفاقی وزیر ہاؤسنگ طارق بشیر چیمہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے اس قانون سازی کے لیے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا۔ اگر وہ ہمیں صحیح معنوں میں اتحادی سمجتھے ہیں تو پھر ہر چیز کا ایک طریقہ کار ہے آپ اس کو اختیار کیے بغیر اپنے اتحادیوں پر دھونس نہیں جما سکتے۔‘
ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ اتحادیوں اور حکومت کے مابین ایک مرتبہ پھر دراڑ آچکی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سیاست ہے اور یہاں روزانہ صورت حال تبدیل ہوتی ہے۔ اب میں صرف پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے متعلق ہی بات کررہا ہوں کہ اس میں ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔‘
دوسری طرف مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمجھتے ہیں کہ حکومت اپنے نمبر کھو چکی ہے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اس وقت مختلف طریقوں پر غور ہورہا ہے۔ یہ بات بھی ہورہی ہے کہ حکومت کے خلاف ایک مرتبہ پھر سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد لائی جائے تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ گراؤنڈ کتنی نیوٹرل ہے۔ کچھ لوگ عمران خان کے خلاف بھی عدم اعتماد لانے کی بات کر رہے ہیں لیکن ہماری پارٹی نے ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں کیا۔‘
مسلم لیگ ن ہی کے ایک اور اہم رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس وقت سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر متحرک ہیں اورانہوں نے ایاز صادق اور راجہ پرویز اشرف سے خود رابطہ کیا ہے اور بل پاس کروانے کی بات کی ہے اور یہ رابطے بدھ کی شام ہوئے ہیں۔ اسد قیصر کو بتا دیا گیا ہے کہ اب عمران خان سے کسی طرح کے مذاکرات نہیں ہوں گے البتہ دیگر لوگوں سے بات ہوسکتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ ن اس وقت صرف قبل از وقت انتخابات چاہتی ہے پارلیمنٹ کے اندر کسی طرح کی تبدیلی وقت کا ضیاع ہے۔
حکومت نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس قانون سازی کے لیے بلایا تھا (فائل فوٹو: اے پی پی)
’نواز شریف اس حوالے سے بالکل کلیئر ہیں اور انہوں نے اپنا دوٹوک پیغام دے دیا ہے کہ صرف قبل از وقت انتخابات ہی اب بحران سے نمٹنے کا واحد حل ہے کچھ طاقتیں ایسی ہیں جو ایوان میں فوری تبدیلی کی خواہاں ہیں۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو اور تحریک عدم اعتماد آجائے یہ اس صورت میں ہوگا کہ نیا آنے والا وزیراعظم اسمبلی توڑنے اور قبل از وقت نئے انتخابات کروانے کے لیے ہو، تاہم اگر سکیم کامیاب ہوتی ہے تو وہ اگلا وزیراعظم ن لیگ سے نہیں ہوگا۔‘
سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ہر دو صورتوں میں اس وقت حکومت مشکل میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے جس منصوبے پر بھی عمل ہو جائے بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کا اصل امتحان اب شروع ہو رہا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اس ساری صورت حال میں اپنے پتے کیسے کھیلتے ہیں، اب 19 نومبر بھی آنے والا ہے اور افواہوں کا بازار بھی گرم ہے۔