Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: سال نو مبارک! کیوں نہ مستقبل کی طرف دیکھیں

کاش نئے سال میں ایسا ہو جائے کہ سیاسی بحث صرف مذہب تک محدود نہ رہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یہ سال بس کسی طرح گزر گیا، لیکن اس میں ایسا بہت کچھ ہوا جو ہونا نہیں چاہیے تھا۔
ہزاروں لاکھوں لوگوں کی زندگیاں کورونا وائرس کی نذر ہوگئیں، لوگ آکسیجن کے لیے تڑپتے رہے اور ان کے چاہنے والے بے بسی سے دیکھتے رہے۔ کچھ حکومتوں کی لاپرواہی تھی کہ انہوں نے خطرے کی نوعیت سمجھنے میں دیر کی اور کچھ سانحے کی وسعت اتنی زیادہ تھی کہ کوئی زیادہ کچھ کر نہیں سکا۔
جب تک حالات قابو میں لائے جاسکے، جنہیں جانا تھا وہ جاچکے تھے۔ ان میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل تھے جو شاید وقت سے پہلے چلے گئے۔
اس سانحے سے ایک بہت ہی سادہ سا سبق حاصل کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ برے یا مشکل وقت کے لیے تیاری آفت سر پر آجانے کے بعد نہیں، اس سے پہلے کی جانی چاہیے۔
آپ کو شاید یاد ہو کہ انڈیا میں کورونا وائرس کی دوسری لہر اچانک آئی، لیکن اتنی اچانک بھی نہیں کہ پہلے سے خبر نہ ہوتی۔ اشارے موجود تھے اور خطرہ نظر آرہا تھا لیکن مغربی بنگال میں بہت بڑا الیکشن ہو رہا تھا اور جب بڑا الیکشن ہو تو کورونا وائرس کی کون فکر کرتا ہے۔
انڈیا میں اب بس چند ہی ہفتوں کے اندر اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ سائز اور سیاسی اہمیت کے لحاظ سے یہ الیکشن مغربی بنگال کے الیکشن سے بھی بڑا ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ جو جیتا وہی سکندر۔
اس لیے بڑی بڑی ریلیاں ہوں گی اور جب لاکھوں لوگ میدانوں میں اور سڑکوں پر ایک ساتھ جمع ہوں گے تو پھر وہی ہو سکتا ہے جو اپریل مئی میں ہوا تھا۔
یہ امید کرنا تو بے کار ہے کہ الیکشن میں ریلیوں پر پابندی لگا دی جائے گی، یا یہ کہ لوگ وہاں سوشل ڈسٹنسنگ کریں گے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ حکام ابھی سے اس کام میں جُت جائیں کہ اگر پھر اچانک کوئی لہر آتی ہے، تو کم سے کم سانس لینے کے لیے لوگ آکسیجن کے سلنڈر بلیک میں خریدتے نہ پھریں۔

شہریت کے متنازع قانون کو عدالت میں پرکھنا باقی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ایسے کاموں کی فہرست تو لمبی ہے جو ہونے چاہیے تھے، لیکن نہیں ہوئے۔
لیکن ایک ایسا کام ضرور ہوا جس سے انڈیا میں جمہوریت کو تقویت اور عام لوگوں کو ہمت ملی اور وہ تھا کسانوں کا کامیاب احتجاج۔
اس تحریک نے یہ ثابت کیا کہ حکمراں پارٹی چاہے پارلیمان میں کتنی بھی طاقتور ہو اور جو چاہے قانون منظور کرا سکتی ہو، لیکن اصل طاقت ہمیشہ عوام کے ہاتھوں میں ہی رہتی ہے۔
کسان گرمی سردی اور برسات میں دلی کی سرحدوں پر خیمہ زن رہے اور آخرکار وفاقی حکومت کو جھکنا ہی پڑا۔ یہ قانون واپس لینا وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے لیے ایک بڑی شکست ضرور تھی، لیکن سال ختم ہوتے ہوتے جمہوریت کے لیے اس سے زیادہ خوش آئند خبر نہیں ہوسکتی تھی۔
لیکن ابھی ایسے بہت سے کام ہیں جو ہونا باقی ہیں۔
ان میں شہریت کے اس متنازع قانون کو عدالت میں پرکھنا باقی ہے جس کے خلاف گذشتہ برس انہی دنوں میں مسلمان عورتیں سڑکوں پر خیمہ زن تھیں۔ آپ کو شاہین باغ کی تصاویر تو یاد ہوں گی۔ اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی پٹیشنز دائر کی گئی تھیں، لیکن عدالت نے ابھی تک ان کی شنوائی شروع بھی نہیں کی ہے۔
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے بھی اس قانون کو ٹھنڈے بستے میں رکھا ہوا ہے۔ دو سال گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک اس قانون کے اطلاق کی راہ ہموار نہیں کی گئی حالانکہ اب صرف کچھ رولز بنانا اور انہیں نوٹیفائی کرنا باقی ہے۔ یا تو حکومت نے اس قانون اور شہریوں کے قومی رجسٹر کی تجویز پر بھی اپنے قدم پیچھے کھینچنے کا فیصلہ کرلیا ہے یا وہ مناسب وقت کا انتظار کر رہی ہے، ایسا وقت جب اس طرح کے متنازع قانون سے بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔

کسان گرمی، سردی اور برسات میں دلی کی سرحدوں پر خیمہ زن رہے۔ فوٹو: اے ایف پی

جو کام نہیں ہونے چاہیے تھے ان میں سیکولرازم کے لیے جگہ تنگ ہونا بھی شامل ہے۔
بی جے پی نے اب انڈیا کی سیاست کو ہندوتوا کے ایک ایسے ’نیریٹو‘ میں تبدیل کر دیا ہے کہ اگر کبھی دوسری جماعتیں اس نظریے کی مخالفت کریں تو بی جے پی کو انہیں ہندو مخالف کہنے کا موقع مل جاتا ہے۔
یہ بات عجیب بھی ہے اور ساتھ ہی دلچسپ بھی کیونکہ کانگریس جیسی پارٹیوں کو اب یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اپنی ’مسلمان ہمدرد‘ امیج سے کیسے نجات پائیں۔ دلچسپ اس لیے بھی ہے کہ کانگریس بھی ہندوؤں کی ہی پارٹی ہے جس کا مسلمان کبھی ساتھ دیا کرتے تھے۔ اب پارٹی کو یہ ثابت کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ ہندوؤں کے خلاف نہیں ہندوتوا کے اس نظریے کے خلاف ہے جس کا پرچار بی جے پی کر رہی ہے۔
خیر یہ جنگ جیتنا آسان نہیں ہے کیونکہ بی جے پی والے جہاں بھی موقع ملے لوگوں کو یہ بتانا نہیں بھولتے کہ ہندوستان نے ’ایک ہزار سال غلامی میں گزارے‘ اور اب کہیں جاکر ہندوؤں کو وہ مرتبہ ملنا شروع ہوا ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔
دسمبر میں ہی نریندر مودی نے قدیم شہر بنارس کے کاشی وشوناتھ مندر کو گنگا سے جوڑنے والے ایک کوریڈور کا افتتاح کیا، وہاں انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ جب جب ملک میں کوئی اورنگزیب آیا تو ایک شوا جی نےاس کا مقابلہ کیا۔ پیغام سمجھانے کے لیے زیادہ کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔
ہاں، آپ کو اتنا ضرور بتا سکتے ہیں کہ اورنگزیب پیدا بھی انڈیا میں ہی ہوا تھا، وفات بھی یہیں پائی اور دفن بھی یہیں ہے۔ اورنگزیب کی پیدائش 1618 میں ہوئی تھی اور اس وقت تک مغل تقریباً ایک صدی سے انڈیا میں رہ کر اس پر حکومت کر رہے تھے۔ مورخین مانتے ہیں کہ انگریزوں کے برعکس مغلوں نے ہندوستان کو اپنا گھر بنایا۔

انڈیا میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کا خطرہ دکھائی دے رہا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

دنیا میں شہریت کا شاید ہی ایسا کوئی قانون ہو جہاں اتنے لمبے عرصے رہنے کے بعد بھی کسی کو شہری حقوق نہ ملتے ہوں۔
اورنگزیب کو شہریت دینے کے لیے تو بہت دیر ہوچکی ہے لیکن ہندو مسلم کی سیاست سے تھوڑا پیچھے ہٹنے کا وقت ابھی باقی ہے، اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔
کاش سیاسی جماعتیں نوکریوں اور کاروبار کی بات کریں، امیر اور غریب کے اس ناقابل یقین فرق کی بات کریں جس میں آپ نے سنا ہوگا کہ ملک کی 10 فیصد امیر ترین آبادی قومی آمدنی کے 57 فیصد حصے پر قابض ہے اور اس میں سے 22 فیصد آمدنی صرف ٹاپ ایک فیصد لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔
جیسا انڈیا کی ایک اعلٰی عدالت نے کہا ہے کہ صدیوں پہلے جو ہوا اسے درست کرنے کا یہ وقت نہیں ہے۔
تو کیوں نہ مستقبل کی طرف دیکھیں؟ کیوں نہ ماضی سے صرف سبق سیکھیں، اسے اب سدھارنے کی کوشش نہ کریں؟
کاش نئے سال میں ایسا ہو جائے کہ سیاسی بحث صرف مذہب تک محدود نہ رہے۔ اس کے علاوہ آپ کی دوسری چھوٹی موٹی اور اگر بڑی ہیں تو وہ تمنائیں بھی پوری ہوں۔
آپ کو نیا سال بہت مبارک ہو۔

شیئر: