Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان طالبان پاکستان میں دہشت گرد گروہوں کو نظر انداز کر رہے ہیں

پاکستان فوج پر ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ فوٹو اے پی
افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان کو بھی تقویت ملی ہے جنہوں  نے سات سال کے وقفے کے بعد ایک مرتبہ پھر دہشت گردانہ  حملوں میں اضافہ کیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق دسمبر کے آخری ہفتے میں پاکستانی طالبان کی جانب سے چھ حملوں اور جوابی حملوں میں آٹھ فوجی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ تمام حملے ملک کے جنوب مغربی حصے میں پیش آئے۔
جبکہ بدھ کی رات گئے طالبان کے ٹھکانوں پر حملے میں دو اور پاکستانی فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ 
اقوام متحدہ کی جولائی میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان ایک مرتبہ پھر منظم ہو رہی ہے جنکی قیادت ہمسایہ ملک افغانستان میں روپوش ہے۔
تاہم افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کو اپنی سرزمین سے بےدخل کرنے کے کوئی آثار سامنے نہیں آئے اور نہ ہی پاکستان میں حملوں سے روکنے کے کوئی اقدامات کیے ہیں۔ 
جبکہ عالمی سطح پر پاکستان افغانستان میں طالبان کی قیادت کو تسلیم کروانے اور ملک کو معاشی بحران سے بچانے کی بھرپور کوششیں  کر رہا ہے۔
گزشتہ چالیس سالوں کے جنگی حالات کے دوران متعدد عسکری گروہوں کو افغانستان میں پناہ لینے کا موقع ملا اور ٹی ٹی پی جیسے چند دیگر گروپ افغان طالبان کے اتحادی بھی رہ چکے ہیں ان عسکری گروہوں میں سے صرف حریف گروپ داعش کو طالبان نے بے دخل کرنے کی کوشش کی ہے۔ 
امریکہ نے افغانستان میں موجود داعش خراساں کو خطرہ قرار دیا ہے جبکہ چین کو اویغور مسلم اقلیتی گروہ سے وابستہ باغیوں سے خطرہ لاحق ہے۔ روس اور وسطی ایشیائی ممالک نے اسلامک موومنٹ ازبکستان سے کو خطرہ قرار دیا ہے جنہوں نے حالیہ سالوں کے دوران افغانستان کی ازبک کمیونٹی سے جنگجو بھرتی کرنا شروع کیے ہیں۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ تحریک طالبان پاکستان ہے جن کے جنگجوؤں کی تعداد کم از کم چار سے دس ہزار ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں سے بھی جنگجو بھرتی کرنا شروع کر دیے ہیں۔

 اے پی ایس سکول حملوں میں بھی ٹی ٹی پی ملوث تھی۔ فوٹو اے ایف پی

پاکستان نے حال ہی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ابھی تک خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ سکے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے سربراہ عامر رانا کا کہنا ہے کہ طالبان کی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات اور اسی دوران ان کے خلاف کارروائیوں کی پالیسی ابہام کو جنم دیتی ہے، جس سے دیگر باغی گروہوں کو بھی تقویت ملتی ہے۔
عامر رانا کے مطابق پاکستان حکومت کی اس پالیسی سے اتحادی ممالک کو بھی تشویش ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اربوں کی سرمایہ کاری کرنے والا ملک چین بھی ٹی ٹی پی کے اویغور باغیوں کےساتھ ساتھ تعلقات کے باعث حکومت پاکستان کے مذاکرات کے فیصلے پر خوش نہیں تھا۔
پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں جولائی میں چینی انجینیئر پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری بھی ٹی ٹی پی نے ہی قبول کی تھی۔ جبکہ ٹی ٹی پی نے اپریل میں بھی ایک ہوٹل پر حملہ کیا تھا جہاں چین کے سفیر ٹھہرے ہوئے تھے۔

شیئر: