شاعر ’اخترشیرانی‘ کے اس شعر میں جس ’شملہ‘ کا ذکر ہے وہ اپنی خُنکی اور خوبیوں کی وجہ سے سیر و سیاحت کا استعارہ بن چکا ہے۔
بھارتی ریاست ہما چل پردیش کا دارالحکومت ’شملہ‘ کبھی ’سملہ‘ کہلاتا تھا۔ مقامی طور پر مشہور روایت کے مطابق یہاں موجود ’شیاملا دیوی‘ کے مندر کی نسبت سے یہ علاقہ ’شیاملا‘ پکارا گیا، جو کثرت استعمال کے سبب سکڑ اور سمٹ کر ’سملہ‘ رہ گیا۔
سنہ 1864 میں جب تاج برطانیہ نے حکومت ہند کا گرمائی دارالحکومت ’مری‘ سے ’سملہ‘ منتقل کیا، تو انگریزوں نے اپنے مخصوص لہجے میں اس ’سملہ‘ کو ’شملہ‘ پکارا، اور پھر یہی اس شہر کا نام قرار پایا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی قریب میں انڈیا میں ’ہندوتوا‘ کے زیراثر اٹھنے والی لہر کے سبب بعض شہروں کے ’قدیم‘ ناموں کی طرف مراجعت کا سلسلہ شروع ہوا تو جہاں کلکتہ کو کولکتہ، بمبئی کو ممبئی، مدراس کو چنئی/چنائے اور الٰہ آباد کو پریاگ راج کا نام دیا گیا، وہیں 2018 میں ’شملہ‘ کا نام ’شیاملا‘ کرنے کا فیصلہ بھی ہوا، مگر مقامی آبادی نے اس فیصلے کے خلاف فیصلہ دیا، اور شہر کا نام ’شملہ‘ برقرار رکھنے پر اصرار کیا، یوں ریاستی حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔
موسم کی مناسبت سے مسکن بدلنے کا دستور برطانوی ہند ہی کی روایت نہیں، قدیم زمانے سے یہ رواج چلا آرہا ہے کہ مختلف خطوں کے باشندے موسم کے بدلنے پر ٹھکانہ بدل لیتے ہیں۔ خود پاکستان میں نسبتاً بلند مقامات پر آباد باشندے سردی شدید ہوجانے پر نشیبی علاقوں کا رُخ کرتے ہیں۔
ایسے کم سرد یا نسبتاً گرم مقامات کو، جہاں سردیاں گزاری جائیں اصطلاح میں ’قِشلاق‘ کہتے ہیں۔
ترکی اور منگولین زبانوں سے متعلق ’قِشلاق‘ دو لفظوں ’قِش‘ بمعنی ’سرد/سردی‘ اور ’لاق‘ بمعنی ’مقام‘ سے مرکب ہے۔ یوں ’قِشلاق‘ کے لفظی معنی ’مقامِ سرد‘ کے ہیں، مگر عملاً یہ مقام سرمائی اقامت گاہ ہوتے ہیں۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ’قِشلاق‘ کا جُز ثانی ’لاق‘ لفظ ’لاخ‘ ہی کی ایک صورت ہے، اس ’لاخ‘ پر ہم لفظ ’سنگلاخ‘ اور ’دیو لاخ‘ کے ضمن میں بحث کر چکے ہیں۔
خیر ذکر تھا ’قِشلاق‘ کا، جو منگولین اور ترکی کے زیراثر ازبک، کرغیز، ترکمانی، آذربائیجانی، فارسی، دری اور اردو زبان میں راہ یاب ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھوں مربع میل پر محیط وسیع و عریض خطے میں درجنوں مقامات ہیں جو مختلف سابقوں اور لاحقوں کے ساتھ یا اس کے بغیر ’قِشلاق‘ پکارے جاتے اور اپنے ’مقامِ خُنک‘ ہونے کا پتا دیتے ہیں۔
اگر ترکی کے ’صوبہ ختائی‘ میں ایک قصبہ ’قِشلاق/Kışlak‘ نام کا ہے تو صرف ایران کے ’صوبہ تہران‘ میں ’قشلاقِ ملارد، قشلاقِ حاجی آباد اور قِشلاقِ جیتو‘ نام کے تین مختلف مقامات موجود ہیں۔ جب کہ افغانستان میں ’قشلاق سانچارک اور قِشلاقِ کُھنہ‘ موجود ہیں۔
اس ’قِشلاق‘ کا تلفظ ’قِشلوق‘ اور ’کِشلاک‘ بھی ہے۔ اب اس ثانی الذکر ’کشلاک‘ کو ذہن میں رکھیں اور کوئٹہ کے قریب واقع معروف مقام ’کُچلاک‘ پر غور کریں تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ بھی اصلاً ’قِشلاق‘ ہی کی متغیر صورت ہے۔ اس ’کُچلاک‘ کا ایک تلفظ ’کُچلاغ‘ بھی ہے۔
کوئٹہ اور زیارت اپنی سردی اور برفباری کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، جب کہ ان دونوں مقامات کے درمیان واقع ’کُچلاک‘ نسبتاً کم سرد ہے، قیاس کہتا ہے کہ اگلے وقتوں میں جب گیس، گیزر اور ہیٹر دستیاب نہیں تھے، کوئٹہ اور زیارت کے باشندے سردی بڑھنے پر جس مقام کا رُخ کرتے ہوں گے، وہ یہی ’کُچلاک‘ ہوگا۔
اب کوئٹہ اور زیارت کی وجہ تسمیہ بیان کرنے سے قبل،اس سوال کا جواب ضروری ہے کہ جس مقام پر سردیاں گزاری جائیں وہ اگر ’قِشلاق‘ ہے تو پھر وہ مقام جہاں گرمیاں گزاری جائیں، کیا کہلاتا ہے؟
عرض ہے کہ خوشگوار آب ہوا کے حامل ایسا مقام جہاں گرمیاں گزاری جائیں ’ییلاق‘ کہلاتا ہے، جس کی دوسری صورت ’ایلاق‘ ہے۔
’قِشلاق‘ کی طرح ’اییلاق‘ بھی ترکی الاصل لفظ ہے، جو ’یی‘ بمعنی ’گرم‘ اور ’لاق‘ بمعنی مقام سے مرکب ہے، یوں ’ییلاق‘ کے معنی ’مقامِ گرم‘ کے ہیں، تاہم عملاً یہ وہ خوشگوار مقام ہوتا ہے جو گرمائی اقامت گاہ کا کام دیتا ہے۔ ترکی زبان کا ’ییلاق‘ فارسی کی نسبت سے اردو زبان میں بھی موجود ہے۔ جب کہ ایران میں ’ییلاق بیلگا دول(شمالی خراسان)، ییلاقِ مرشون (زنجان)اور ییلاقِ سھیلیہ (البرز)‘ نامی مقامات موجود ہیں۔ تاہم اردو زبان میں ’ییلاق‘ صرف لغت میں نظر اتا ہے۔
اب زیر بحث ’قِشلاق و ییلاق‘ کو فارسی کے کلاسیکی شاعر ’خواجو کرمانی‘ کے ہاں ملاحظہ فرمائیں جو کہہ گئے ہیں ’خیمہ بر چشمم زند ییلاق و قشلاقش نگر‘ یعنی میری آنکھوں میں خیمہ زن ہو کر گرمی اور سردی کا نظارہ کرو۔
اب کوئٹہ کی بات کرتے ہیں جسے مقامی لہجے میں ’کوئٹی‘ کہا جاتا ہے۔ اس ’کوئٹہ‘ کو ’کوٹ‘ یعنی قلعے سے نسبت ہے۔ غالباً اس مقام کو یہ نام چہار جانب سے پہاڑوں کے درمیان گھرے ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔
جہاں تک بلوچستان کے مشہور سیاحتی مقام ’زیارت‘ کی وجہ تسمیہ کا تعلق ہے، تو اس مقام کو یہ نام مُلا طاہر المعروف بابا خراوری کی نسبت سے ملا ہے۔ اس علاقے میں بابا خراوری کا مزار ’زیارت گاہ‘ ہے جس کی نسبت سے یہ علاقہ ’زیارت‘ کہلاتا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے اس مقام کا نام ’غوسکی‘ تھا۔ اب ’زیارت گاہ‘ کی رعایت سے علامہ اقبال کا شعر ملاحظہ کریں: