Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زخمی تیندوا دورانِ علاج ہلاک، ’معدوم ہوتی وائلڈ لائف کا تحفظ بہت ضروری‘

زخمی تیندوے کو گزشتہ روز علاج کے لیے اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا۔ (تصویر: محکمہ وائلڈ لائف)
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں دریائے نیلم کے کنارے نوسدہ کے مقام پر زخمی حالت میں ملنے والا تیندوا اسلام آباد میں دوران علاج چل بسا ہے۔
سنیچر کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں کچھ لوگوں کو ایک تیندوے کو اردگرد جمع دیکھا جا سکتا تھا۔
یہ تیندوا مظفر آباد کے نواحی علاقے نوسیری میں زخمی حالت میں دریائے نیلم کے کنارے پڑا تھا اور چلنے پھرنے سے قاصر نظر آرہا تھا۔ پہلے پہل تو اس کے اردگرد جمع لوگوں نے اسے اپنی مدد آپ کے تحت ریسکیو کرنے کی کوشش کی اور اسے پتھروں پر گھسیٹتے رہے، تاہم ناکامی کی صورت میں وائلڈ لائف کی ٹیموں کو اطلاع دی گئی تھی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی تیندوے کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’دریائے نیلم پر پانی پیتے تیندوے کے ظالمانہ اور بے رحمانہ قتل کی خبر سن کر بہت دکھ ہوا۔ پاکستان میں معدوم ہوتی وائلڈ لائف کا تحفظ بہت ضروری ہے۔‘
نواز شریف نے مزید کہا کہ ’محکمہ وائلڈ لائف اس واقعے میں ملوث تمام مجرموں کو گرفتار کر کے عبرت ناک سزا دلوائے۔‘
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں محکمہ وائلڈ لائف کے ڈائریکٹر نعیم افتخار ڈار نے اردو نیوز کو بتایا کہ زخمی تیندوے کو سنیچر کی رات کو ہی علاج کے لیے اسلام آباد کے ایک جانوروں کے ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا جہاں اس کا آپریشن بھی کیا گیا لیکن وہ جانبر نہیں ہوسکا۔
گذشتہ روز مقامی میڈیا میں چلنے والی خبروں میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ تیندوا کسی پہاڑ سے گر کر زخمی ہوا ہے۔ تاہم نعیم افتخار ڈار کا کہنا ہے کہ زخمی جانور کی ریڑھ کی ہڈی سے 12 بور کے کارتوس کے چھ چھرے برآمد ہوئے ہیں۔
’ان چھروں نے اس کی ریڑھ کی ہڈی کو شدید متاثر کیا اور دیکھ بھال کے باوجود وہ جانبر نہ ہوسکا۔‘
ایک سوال کے جواب میں محکمہ وائلڈ لائف کے افسر نہ کہا کہ یہ واقعہ شکار کا نہیں ہے بلکہ قوی امکان یہ ہے کہ اسے کسی علاقے کے رہائشی نے زخمی کیا ہوگا۔
’جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے سبب ان کی آبادی میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ سردیوں میں جب پہاڑوں پر برف جم جاتی ہے تو یہ نیچے انسانی علاقوں میں آ جاتے ہیں اور پھر اپنی بھوک مٹانے کے لیے کتوں یا پالتو جانوروں پر حملہ کرتے ہیں۔
نعین افتخار ڈار نے اس واقعہ کو ’ہیومن وائلڈ لائف تنازع‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔ ’لوگوں کے لیے ان کے مال مویشی ان کے گزر بسر کا ذریعہ ہیں اور جب ان پر جنگلی جانور حملہ کرتے ہیں تو وہ بچاؤ کے لیے اکثر ان پر حملہ کرتے ہیں۔‘
اس وقت اس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں اور معلوم کیا جارہا ہے کہ ہلاک ہونے والے تیندوے نے حالیہ دنوں میں کن افراد کے مویشیوں پر حملہ کیا تھا۔
تاہم محکمہ وائلڈ لائف کے افسر کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات پچھلے سال بھی رونما ہوتے رہے ہیں کیونکہ مظفرآباد کے مضافات اور باغ سٹی میں بھی تیندوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔
ان کے مطابق ایسے واقعات انڈیا اور افریقہ میں بھی ہوتے ہیں جہاں انسان اپنے یا اپنے مویشیوں کے بچاؤ کے لیے جانوروں کو بھگانے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض اوقات جانور اس اثنا میں جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

شیئر: