اے ایچ الماس نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ ہمیں ہمارے مذہب اور تعلیم میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور کررہے ہیں، یہ کس قسم کی مساوات ہے؟‘
یہ لڑکیاں اس وقت سے احتجاج پر ہیں، اس کے جواب میں اُڈوپی میں ہندو نوجوان اپنے مذہب کی علامت کے اظہار کے طور پر زعفرانی مفلر اور شال پہن کر تواتر سے جمع ہوتے ہیں۔
یہ کیسے ہوا؟
ایک سکول نے کلاس رومز میں سیکولرازم کو تحفظ دینے کے لیے بظاہر ایک حکم نامہ جاری کیا جو کہ اب بڑھ کر جنوبی ریاست کرناٹک میں مذہبی احتجاج اور اس کے جواب میں مخالف مظاہروں کی شکل اختیار کرچکا ہے، اور اب یہ سلسلہ انڈیا اور اس سے آگے پھیل رہا ہے۔
مندیہ کے ایک کالج میں ایک مسلمان طالبہ مسکان خان کو دیکھ کر زعفرانی رنگ کے مفلر پہننے والے لڑکوں نے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے جبکہ لڑکی نے ان کے جواب میں ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگایا۔ مسلمان طالبہ کی یہ ویڈیو تیزی سے وائرل ہوئی ہے جس میں وہ کالج کی جانب بڑھ رہی ہیں۔
حجاب کے معاملے پر انڈیا کے بڑے شہروں دہلی، ممبئی اور کولکتہ کے علاوہ مسلم اکثریتی پڑوسی ملک پاکستان میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے مسلمان طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کے معاملے پر انڈین سفارت کار کو طلب کر کے احتجاج بھی کیا ہے۔
پاکستان کی نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے بھی انڈیا کی مسلمان طالبات کے موقف کی حمایت کی ہے۔
الماس کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک معمولی بات ہے، یہ ایک بنیادی حق ہے، ہم نے کبھی سوچا نہ تھا کہ معاملہ اتنا آگے چلا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہر چیز مختلف ہوگئی ہے۔‘
الماس کے مطابق ’ہندو تہواروں کے موقع پر سکول مختلف عبادات کا اہتمام کرتا ہے، جبکہ مسلمان طلبہ نے اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔‘
’اس سے قبل ہمارے درمیان کوئی ہندو یا مسلمان نہیں تھا، تاہم اب ہر چیز مختلف ہوگئی ہے۔‘
حجاب کے معاملے پر تناؤ نے انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں میں خوف کی لہر پیدا کردی ہے، جو پہلے ہی سمجھتے ہیں کہ نریندر مودی کی قوم پرست ہندو حکومت کے دوران ان پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیا جنتا پارٹی پر الزام لگایا جارہا ہے کہ اس نے انڈیا کی سیکولر بنیادوں کو کمزور کیا ہے اور اقلیتوں میں خوف کے ماحول کو پروان چڑھایا ہے۔
پابندی کا شکار ہونے والی 17 سالہ طالبہ عالیہ صادق کا کہنا ہے کہ ’حجاب صرف طالبات کا معاملہ تھا جبکہ انہوں نے اسے مذہبی رنگ دے دیاہے۔‘