Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرناٹک ہائی کورٹ نے طالبات کو حجاب، مذہبی لباس پہننے سے روک دیا

 مسلمان طالبہ مسکان خان نے ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے والے طلبہ کے جواب میں ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگایا (فوٹو: سکرین گریب)
انڈیا کی ریاست کرناٹک ہائی کورٹ نے جمعرات کے روز طالبات کو کیس کا حتمی فیصلہ ہونے تک حجاب اور مذہبی لباس پہننے سے روک دیا ہے۔ مقدمے کی آئندہ سماعت پیر کو ہوگی۔
 انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق چیف جسٹس ریتو راج اواستھی، جسٹس کرشنا ایس ڈکشٹ اور جسٹس جے ایم خازی پر مشتمل فُل بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، یہ کیس بدھ کے روز لارجر بینچ کو بھیجا گیا تھا۔
سماعت کے دوران طالبات کے وکیل سنجے ہیج نے دعویٰ کیا کہ لڑکیوں کو گذشتہ برس دسمبر سے اپنے کلاس رومز میں امتیازی صورت حال کا سامنا ہے۔
طالبات کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ ’کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ کے تحت طالبات کے لیے یونیفارم کی کوئی شق نہیں ہے، اور یونیفارم کے بارے میں سکول نے خود طے کرنا ہے۔‘  
کرناٹک حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ’ریاستی حکومت ادارے بنانا چاہتی ہے، لیکن سکولز اور کالجز میں اس طرح نہیں ہوسکتا کہ طالبات کا ایک گروپ سر پر سکارف اور دوسرا گروپ زعفرانی شال پہنے۔
بدھ کو اُوڈوپی کی مسلمان طالبات کی جانب سے دائر متعدد درخواستوں کی سماعت کے موقع پر جسٹس ڈکشٹ کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے نے بنیادی نوعیت کے کئی آئینی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔‘
اس سے قبل سپریم کورٹ نے کیس کرناٹک ہائی کورٹ سے منتقل کرنے کے حوالے سے عوامی مفاد کے تحت دائر درخواست کی سماعت کی تاریخ دینے سے احتراز کیا اور کہا کہ پہلے ہائی کورٹ کو اس بارے میں فیصلہ کرنے دیں۔
انڈیا کی ریاست کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے بعد مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے ریاست میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔

کرناٹک کے کئی کالجوں میں مسلمان طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کے خلاف طالبات اور انسانی حقوق کی تنظیمیں احتجاج کررہی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

منگل کو احتجاج کرنے والے گروپوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ بھی کیا جبکہ کچھ  طالب علموں نے زعفرانی رنگ کا پرچم بھی ایک کالج میں لگادیا۔
گذشتہ ماہ سے ریاست کرناٹک کے کئی کالجوں میں مسلمان طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کے خلاف طالبات اور انسانی حقوق کی تنظیمیں احتجاج کررہی ہیں۔
ابتدا میں حجاب کے معاملے پر احتجاج اور مظاہرے اوڈوپی اور اس کے قریبی علاقوں میں دیکھے گئے، تاہم منگل کو یہ مظاہرے شیوا موگا سمیت دیگر شہروں میں بھی پھیل گئے جہاں زعفرانی مفلر پہننے والے لڑکوں کے ایک گروپ نے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے اور رقص کیا۔
دو شہروں ہریراہا اور دیونگیری میں حجاب پہننے والی مظاہرین اور زعفرانی مفلر پہننے والے ہندو انتہا پسندوں کے گروپس کے ایک دوسرے پر پتھراؤ کے بعد ان شہروں میں اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس اور لاٹھیوں کا استعمال کیا۔

زعفرانی رنگ کا مفلر پہننے والے طلبہ و طالبات نے ایک کالج میں زعفرانی جھنڈا لگادیا (فائل فوٹو: آئی اے این ایس)

مندیہ کے ایک کالج میں ایک مسلمان طالبہ مسکان خان کو دیکھ کر زعفرانی رنگ کے مفلر پہننے والے لڑکوں نے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے جبکہ لڑکی نے ان کے جواب میں ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگایا۔ مسلمان طالبہ کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں وہ بلاخوف کالج کی جانب بڑھ رہی ہیں۔

شیئر: