کیا سعودی عرب کے شہر جدہ میں اماں حوا کی قبر ہے اور کیا یہ شہر اماں حوا سے منسوب ہے۔
یہ وہ سوالات ہیں جو عمرہ زائرین خصوصاً برصغیر سے تعلق رکھنے والے لوگ پوچھتے ہیں اور یہ زبان زد عام ہیں۔
جدہ اماں حوا سے منسوب ہے اور اماں حوا کی قبر کہاں واقع ہے؟ اس سوال پر مورخین کی رائے میں اختلاف ہے۔
مزید پڑھیں
-
جوازات میں فائل بند ہونے پر ’خروج وعودہ‘ لگ سکتا ہے؟Node ID: 653951
-
عرب دنیا میں مدرز ڈے منانے کے چھ منفرد طریقےNode ID: 654216
بعض سیاحوں اور مورخین نے جو تفصیلات بیان کی ہیں، ان سے لگتا ہے کہ اماں حوا جدہ میں دفن ہیں۔
جدہ میں ایک قبرستان، مقبرہ اماں حوا ضرور موجود ہے۔ یہ مقبرہ جدہ کے العماریہ محلے کے آخر اور الصحیفہ محلے کے شروع میں واقع ہے۔
بعض مورخین کا دعویٰ ہے کہ یہی وہ مقبرہ ہے جہاں اماں حوا دفن ہیں۔ اسی لیے اس کا نام مقبرہ اماں حوا پڑ گیا ہے۔
ابن جبیر چھٹی صدی ہجری میں جدہ آئے تھے۔ انہوں نے تحریر کیا کہ وہاں ایک گنبد دیکھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ اماں حوا کا مسکن تھا۔
ابن بطوطہ جنہوں نے ساتویں صدی میں جدہ کا سفر کیا تھا، اسی گنبد کا ذکر کیا ہے۔

ترک سیاح اولیا جلبی نے اپنے سفر حجاز میں جو 1082عیسوی میں کیا گیا تھا تحریر کیا کہ وہاں ایک چھوٹا سا گنبد ہے جہاں اماں حوا دفن ہیں۔
معروف مورخ الطبری اپنی کتاب (تاریخ الطبری) اور قرآن کے مشہور مفسر اور محقق ابن کثیراپنی تصنیف (البدایہ والنہایہ) میں لکھتے ہیں کہ اماں حوا مکہ کے قریب جدہ میں اتری تھیں۔ معروف مورخ ابنِ اسحاق نے بھی یہی بات کہی ہے۔
13 ویں صدی عیسوی کے مصنف ابن النجار نے تاریخ المستنصر میں قبر کا بھی ذکر کیا ہے۔
قبر کی طوالت کے بارے میں بھی مختلف باتیں سامنے آتی رہیں ہیں۔ مورخین کی جانب سے کئی دعوے کیے گئے۔
ایک سیاح محمد لبیب بشنونی نے جدہ میں اماں حوا کے مقبرے کے حوالے سے لکھا کہ یہ قبر 150 میٹر لمبی، ایک میٹر اونچی اور تین میٹرچوڑی ہے۔
تاہم جدہ میں اماں حوا کی قبر سے متعلق دعوے کے علمی یا تاریخی ثبوت نہیں ملتے۔
متعدد سکالرز اور تاریخ کے ماہرین جدہ میں اماں حوا کے مقبرے کو تاریخی فسانہ قرار دیتے ہیں۔

کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر عبدالرحمان بن سعد العرابی نے ’جدہ کی تاریخ کا افسانہ‘ کے عنوان سے کنگ عبدالعزیز اکیڈمی کے مجلے میں اس پر بحث کی ہے۔
پروفیسر عبدالرحمن بن سعد العرابی کا کہنا ہے کہ طوفان نوح میں بابا آدم اور اماں حوا کی قبریں مٹ گئی تھیں، اس کے بعد ان کی نشاندہی کا کوئی صحیح ثبوت نہیں ملتا۔
ڈاکٹر محمد نویلاتی نے’اسطورۃ جدہ امنا حوا، بین الاساطیر والادیان والعلم‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی، جس میں لکھا ہے کہ اماں حوا کی قبر پر پہلی مرتبہ باقاعدہ گنبد سلطان سلیمان الثانی نے 1107- 1105ھ میں بنوایا تھا۔ یہ کئی بار منہدم کیا گیا اور پھر بنایا گیا۔
آخری بار سلطان عبدالحمید الثانی نے 1305ھ میں گنبد تعمیر کرایا تھا جو اب موجود نہیں ہے۔
جدہ کے ایک بزرگ راوی ہیں کہ غالباً قبرستان کا نام اماں حوا سے اس لیے منسوب ہوگیا کیونکہ یہاں حوا نام کی ایک خاتون دفن ہیں۔ اکثر لوگ اپنی بچیوں کے نام تبرک کے طور پر اماں حوا کے نام پر رکھ دیا کرتے تھے۔ ممکن ہے اسی حوالے سے اسے حوا کے قبرستان کا نام دیا گیا۔
معتبر تاریخی حوالوں میں اس سوال کا کوئی ایک متفقہ جواب نہیں ملتا کہ اماں حوا کی قبر کہاں ہے؟
