میں کبھی بھی اس خدمت کے پیش نظر کسی دنیاوی اجر کی تلاش میں نہیں رہا۔ فوٹو عرب نیوز
فلسطینی ابو حسام ھنیہ کا نام نصف صدی سے غزہ شہر کی عظیم عمری مسجد کے مؤذن کے طور پر جانا جاتا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق 85 سالہ ابو حسام کا کہنا ہے کہ میں نے اس مقدس سفر کا آغاز رضاکار کے طور پر کیا، وزارت وقف اور مذہبی امور کے اعداد و شمار کے مطابق اب وہ غزہ پٹی کے سب سے قدیم مؤذن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب میں نے مؤذن کے طور پر اس خدمت کا آغاز کیا تو مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ میری عمر اتنی لمبی ہو گی اور میرا نام اس عظیم مسجد کے ساتھ جڑ جائے گا۔
عمری مسجد کے مؤذن نے پرانی یادوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ کئی دہائیاں قبل جب انہوں نے مسجد کے مستقل مؤذن سے اذان دینے کی اجازت طلب کی۔
پہلی بار عمری مسجد کے مائیک میں اذان دی جو ایک شاندار تجربہ تھا جسے میں کبھی نہیں بھولوں گا یہ میری زندگی کا عظیم ترین لمحہ تھا۔
فلسطینی اتھارٹی کے قیام 1994 تک ابو حسام رضاکار کے طور پر مسجد میں پانچوں وقت اذان دیتے رہے۔
مسجد کے مستقل مؤذن ابو السید کی وفات کے بعد انہیں وقف کی وزارت میں مستقل مؤذن کے طور پر خدمات کا موقع ملا ۔
مؤذن کا کہنا ہے کہ میں کبھی بھی اس خدمت کے پیش نظر کسی دنیاوی اجر کی تلاش میں نہیں رہا کیونکہ مؤذن کا اجر بہت بڑا ہے اور اللہ تعالی کے پاس موجود ہے جو اسے روز قیامت مل جائے گا۔
ابوحسام کا کہنا ہے کہ مؤذن زمین پر اللہ تعالی کی جانب سے صدا بلند کرتے ہیں اور مسلمانوں کو دنیا کی لذت کو چھوڑ کر عبادت کی دعوت دیتے ہیں۔
مؤذن ابو حسام عمری مسجد میں ہی رہتے ہیں جو پرانے غزہ شہر میں الدراج کے قدیم محلے میں آباد ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مجھے مسجد کے اندر انتہائی سکون ملتا ہے، خاص طور پر ماہ رمضان میں جب میں مسجد کے اندر بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرتا ہوں اور ماضی کی یادیں میرے سامنے ہوتی ہیں جو کہ دہائیوں پر محیط ہیں۔
ابوحسام ھنیہ نے اپنے خاندان کے متعلق بتایا کہ ہمیں 1948میں فلسطین میں اپنا آبائی علاقہ جافا چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ہمارے خاندان کو غزہ سٹی کے اس علاقے میں پناہ لینا پڑی۔
انہوں نے بتایا کہ آبائی علاقہ چھوڑنے کے بعد میں سکول نہیں جا سکا اور بڑھئی کا کام سیکھنا شروع کر دیا۔
ابوحسام غزہ شہر میں ہی اپنے تین بیٹوں اور تین بیٹیوں کے ساتھ مستقل مقیم ہیں۔
ابو حسام نے اپنے بچپن کی دنوں کو یاد کرتے ہئے بتایا کہ مجھے ماضی کی تمام باتیں یاد ہیں جب میں جافا میں رہتا تھا، ہم کس گھر میں رہتے تھے، میرے والد کا بذریعہ ٹرین مصر جانا اور وہاں سے حج کا سفر، افطار کے وقت توپ کی آواز اور بہت سے دوستوں کے ہمراہ افطار کے لمحات۔
ابوحسام نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے آبائی شہر جافا واپس جانا چاہتا ہوں اور مسجد اقصیٰ میں اذان دینا چاہتا ہوں۔