اسلام آباد ہائی کورٹ نے 9 اپریل کی رات اپنے دروازے کھولنے کے حوالے سے وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئینی عدالت میں شدید ہنگامی نوعیت کی درخواست عدالتی وقت کے بعد بھی جمع کروائی جا سکتی ہیں۔
عدالت کی جانب سے جاری کیے گئے وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ 9 اپریل کی رات کو دائر کی گئی پٹیشنز کے حوالے سے غلط رپورٹنگ ہوئی ہے اور سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ کیا عدالتی وقت کے بعد بھی درخواستیں دائر کی جا سکتی ہیں؟
مزید پڑھیں
-
شہباز شریف کے خلاف ایف آئی اے کا مقدمہ ہے کیا؟Node ID: 660256
-
انتقام نہیں لیں گے لیکن حساب ہو گا: مریم نوازNode ID: 660271
-
نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف کا مبینہ خط سازش کی تحقیقات کا اعلانNode ID: 660316
عدالت کا کہنا ہے کہ 11 نومبر 2019 اور 10 فروری 2021 کو عدالت کی جانب سے جاری کیے نوٹیفکییشنز میں عدالتی کے وقت کے بعد درخواست دائر کرنے کا طریقہ کار طے کیا گیا ہے۔
وضاحتی بیان کے مطابق آئینی عدالت ہونے کی وجہ سے شدید ہنگامی نوعیت کی درخواستیں کسی بھی وقت دائر کی جا سکتی ہیں اور اگر چیف جسٹس درخواست کے ہنگامی ہونے سے متعلق متفق ہوں تو وہ اسے سماعت کے لیے مقرر بھی کر سکتے ہیں۔
عدالت کا کہنا ہے کہ 9 اپریل کی رات سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے عدالت سے رجوع کیا اور آئین کے آرٹیکل 187 کے تحت درخواست دائر کرنے کے بارے میں معلومات لیں۔
’عدالتی عملے نے عدالتی نوٹیفیکیشنز کی جانب ان کی توجہ مبذول کرائی۔ اس دوران کچھ اور درخواستیں بھی ہائی کورٹ میں دائر ہوئیں جو چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر پہنچا دی گئیں۔ چیف جسٹس نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ کوئی بھی درخواست ہنگامی نوعیت کی نہیں اور نہ ہی ان پر کسی قسم کے عدالتی حکم کی ضرورت ہے۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے بیان میں قرار دیا ہے کہ نوٹیفیکیشنز کے تحت عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد بھی درخواست دائر کی جا سکتی ہے اور اگر چیف جسٹس مطمئن ہوں تو وہ سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے مناسب حکم بھی جاری کر سکتے ہیں۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق اگر کسی کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو یا کسی انسان کی آزادی ہو تو اس سے متعلق بھی درخواست دائر کی جا سکتی اور اگر کسی دوسرے مسئلے سے متعلق درخواست دائر کی جاتی ہے تو اس کی ہنگامی نوعیت پر چیف جسٹس کا مطمئن ہونا ضروری ہے۔
