پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بدھ کی صبح پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے ایک نوجوان کو حراست میں لے لیا گیا اور ان کی حراست کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کا دعویٰ ہے کہ انہیں کسی حساس ادارے کے اہلکاروں نے غیرقانونی طور پر حراست میں لیا ہے۔
سماجی کارکن اور وکیل ایمان حاضر مزاری نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’کل کے حملے کے بعد بلوچ عوام کو اجتماعی سزا۔‘
مزید پڑھیں
-
کراچی حملہ: ’خودکش حملہ آور خاتون سرکاری سکول میں ٹیچر تھی‘Node ID: 664716
ان کے مطابق تحویل میں لیے جانے والا نوجوان ایک طالب علم ہے جو اسلام آباد سے لاہور اپنے کزن کے پاس عید کی چھٹیاں گزارنے آیا تھا۔
واضح رہے کہ منگل کو کراچی یونیورسٹی میں کنفیوشس سینٹر کے باہر ایک خاتون خودکش حملہ آور نے تین چینی باشندوں سمیت چار افراد کی جان لے لی تھی۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔
کل کے حملے کے بعد بلوچ عوام کو اجتماعی سزا۔ ایک اور بلوچ طالب علم (نمل میں زیر تعلیم) آج پنجاب یونیورسٹی کے باہر سے لاپتہ کیا گیا جہاں وہ اپنے کزن کے پاس عید کی چھٹیاں گزارنے گیا تھا.#ReleaseBebargImdad#StopHarassingBalochStudents pic.twitter.com/1jNbNiMpaH
— Imaan Zainab Mazari-Hazir (@ImaanZHazir) April 27, 2022
لاہور میں بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کے ترجمان نے اپنی بیان میں لاپتا ہونے والے شخص کی شناخت بیبگر امداد بلوچ کے نام سے کی ہے اور واقعے کو ’اغوا نما گرفتاری‘ قرار دیا ہے۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو گردش کررہی ہے جس میں طالب علموں کو ایک شخص کے اردگرد کھڑے دیکھا جاسکتا ہے۔
ویڈیو میں نظر آنے والے فرد کے حوالے سے صارفین کا کہنا ہے کہ وہ پنجاب یونیورسٹی کے سکیورٹی انچارج ہیں۔
ویڈیو میں سکیورٹی انچارج اپنے اردگرد کھڑے طالب علموں کو بتارہے ہیں کہ بیبگر امداد بلوچ کو حراست میں لینے آنے والوں نے انہیں لڑکے کے کمرے کا نمبر دیا۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’میں نے انہیں کہا کہ میں خود جاؤں گا تاکہ مجھے یہ پتا ہو کہ وہ (بیبگر امداد بلوچ) گیا ہے۔‘
