Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ایلون مسک کے لیے ٹوئٹر کے معاملات چلانا مشکل ہو سکتا ہے؟

ایلون مسک نے یورپی یونین کے انٹرنل مارکیٹ کمشنر تھیری بریٹن کے ساتھ ملاقات کی (فوٹو: اے پی)
ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک نے ایک طرف سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ٹوئٹر استعمال کرنے پر پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا تو دوسری طرف ان کا کہنا ہے کہ وہ یورپی یونین کے ڈیجیٹل سروسز ایکٹ سے متفق ہیں۔
یہ ایسا قانون ہے جس کے تحت ٹوئٹر سمیت ٹیکنالوجی کی دیگر بڑی کمپنیوں کو اپنے پلیٹ فارم پر نفرت انگیز مواد کی کڑی نگرانی کرنا ہوگی۔ان بظاہر متضاد بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے امیرترین فرد ایلون مسک کو ٹوئٹر پر درجنوں زبانوں میں مواد کی نگرانی میں کیا مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
ٹوئٹر کو مشتہرین، صارفین اور سیاستدانوں کے ردعمل کو سامنے رکھتے ہوئے کئی ممالک میں قواعد و ضوابط کی پابندی کرنا ہوگی۔
الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن میں سول لبرٹیز کے ڈائریکٹر ڈیوڈ گرینز نے کہا کہ ’یقینی طور پر وہ پہلے شخص نہیں ہیں جو کہیں گے کہ میں یہ کر سکتا ہوں، اور پھر احساس ہو کہ وہ یہ نہیں کرنا چاہتے یا ان کے صارفین نہیں چاہتے کہ وہ ایسا کریں۔‘
ایلون مسک نے یورپی یونین کے انٹرنل مارکیٹ کمشنر تھیری بریٹن کے ساتھ ملاقات کی تاکہ یورپی یونین کے آن لائن ریگولیشنز پر بات کر سکیں۔
تھیری بریٹن نے ایلون مسک کو بتایا کہ یورپی یونین کس طرح آزادی اظہار کو یقینی بنانا چاہتی ہے اور اس بات کو بھی یقین بنانا چاہتی ہے کہ کوئی غیرقانونی کام نہ ہو۔ ان کے مطابق ’مسک نے اس بات پر پوری طرح اتفاق کیا۔‘
اے پی کے مطابق یورپ کا ڈیجیٹل سروسز ایکٹ ٹوئٹر اور دیگر کمپنیوں کے لیے خطرہ ہے کیونکہ اگر وہ قانون پر عمل نہ کر سکے تو انہیں اربوں ڈالر کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔
 گذشتہ روز ایلون مسک نے کہا تھا کہ وہ ٹوئٹر کے مالک کی حیثیت سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر عائد پابندی ختم کر دیں گے۔
اے ایف پی کے مطابق ایلون مسک نے منگل کو اپنے بیان میں کہا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پلیٹ فارم سے ہٹانے سے ’ملک کا ایک بڑا حصہ الگ ہوگیا۔‘
ٹرمپ کو ٹوئٹر اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز سے اس وقت بین کیا گیا تھا جب ان کے حامیوں نے ان کی ٹویٹس اور تقریر کی بنیاد پر 6 جنوری 2021 کو کیپیٹل ہل پر حملہ کیا تھا۔

اے پی کے مطابق یورپ کا ڈیجیٹل سروسز ایکٹ ٹوئٹر اور دیگر کمپنیوں کے لیے خطرہ ہے (فوٹو: اے پی)

مسک نے کہا ہے کہ ’میرے خیال میں یہ ایک غلطی تھی کیونکہ اس (اقدام) نے ملک کے ایک بڑے حصے کو الگ کر دیا۔‘
اس پر یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں ٹیکنالوجی کی پروفیسر کرسٹین مارٹن کا کہنا ہے کہ ’اگر مسک کو یہ لگتا ہے کہ ٹرمپ پر پابندی سے بہت سارے لوگ پریشان تھے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ صرف ایک چھوٹے طبقے کے بارے میں فکر مند ہیں جو تشدد اور نفرت انگیزی کو بڑھاوا دیتے ہیں۔‘

شیئر: