75 سال بعد مسلمان پاکستانی خاتون کی انڈین سکھ بھائیوں سے کرتارپور میں ملاقات
75 سال بعد مسلمان پاکستانی خاتون کی انڈین سکھ بھائیوں سے کرتارپور میں ملاقات
بدھ 18 مئی 2022 12:55
روحان احمد، اردو نیوز، اسلام آباد
ممتاز بی بی ضلع شیخوپورہ کی رہائشی جبکہ سکھ بھائیوں کا تعلق انڈین پنجاب سے ہے۔ (سکریٹ شاٹ/سانجھ ٹی وی)
پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرتارپور راہدای کا افتتاح 12 نومبر 2019 کو سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک کے 550 ویں جنم دن کے موقع پر ہوا تھا جس کا مقصد پڑوسی ممالک میں موجود سکھ برادری کو پاکستان میں موجود گردوارہ کرتارپو صاحب تک رسائی دینا تھا۔
گردوارہ کرتارپور صاحب وہ جگہ ہے جہاں بابا گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال یہاں گزارے تھے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ان سے عقیدت رکھنے والے سکھ برادری کے افراد یہاں عبادت کے لیے آتے ہیں۔
کرتارپور راہداری کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب مارچ 2020 میں بند کر دیا گیا تھا اور اسے دوبارہ نومبر 2021 میں کھولا گیا۔ کورونا وائرس کے باعث عائد پابندیوں میں نرمی کے بعد انڈین سکھ یاتریوں کی ایک بڑی تعداد روزانہ کی بنیاد پر گردوارہ کرتارپور صاحب آ رہی ہے۔
لیکن پاکستان اور انڈیا کے بیچ اس راہداری نے سکھوں کو صرف باباگرونانک سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کا موقع نہیں دیا بلکہ اس نے تقسیم ہند کے دوران بچھڑ جانے والے خاندانوں کو دوبارہ ملانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
تقسیم ہند کے دوران فسادات میں اپنے خاندان سے بچھڑ جانے والی ایک ایسی ہی خاتون پاکستان کے ضلع شیخوپورہ کی رہائشی ممتاز بی بی بھی ہیں۔
ممتاز بی بی کا تعلق شیخوپورہ کے ایک سکھ خاندان سے تھا اور وہ 1947 میں اپنے خاندان سے بچھڑ گئیں تھیں اور پھر یہاں انہیں ایک مسلمان خاندان نے گود لے لیا اور ان کی پرورش بحیثیت مسلمان ہوئی۔
انٹرنیٹ اور کرتارپور راہداری نے ممتاز بی بی کو 75 سالوں بعد اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں سے ملنے کا موقع دیا۔
ان کے بھائی اپنے خاندان کے ساتھ انڈین پنجاب کے علاقے پٹیالہ میں رہتے ہیں اور وہ کچھ دن پہلے کرتارپور راہداری کے ذریعے گردوارہ کرتارپور صاحب آئے جہاں ان کی اپنی بہن سے ملاقات ہوئی۔
پاکستان میں مقامی صحافی نذر بابک سے بات کرتے ہوئے ممتاز بی بی کے بڑے بھائی گرمک سنگھ کا کہنا تھا کہ ’بیان نہیں کی جا سکتی، جتنی خوشی آج مل کر ہوئی ہے۔ بہت ہی دل خوش ہوا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ’جب 1947 کے فسادات ہوئے تب یہ خاندان سے بچھڑ گئیں اور ادھر ہی رہ گئیں۔ ان کے بارے میں ہمارے بزرگوں کو پتا ہی نہیں تھا کہ یہ زندہ ہیں یا ماری گئیں۔‘
گرمک سنگھ کے مطابق انہیں انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی بچھڑی ہوئی بہن کے زندہ ہونے کی اطلاع ملی۔
’ادھر ہمیں ان کی اطلاع ملی اور پھر ان سے بات ہوئی، پھر ہم ان سے یہاں ملنے آئے ہیں 70، 75 سال بعد۔‘
ان کی کم گو نظر آنے والی بہن ممتاز بی بی کا کہنا تھا کہ بھائیوں سے مل کر انہیں بہت خوشی ہوئی ہے کیونکہ وہ پہلی بار پاکستان آئے ہیں۔
تاہم اس سے قبل ان کے دو بھتیجے ان سے ملنے پاکستان آ چکے ہیں۔
ممتاز بی بی کے دوسرے بھائی اپنی بہن کو گود لینے والے مسلمان خاندان کے شکرگزار نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جنہوں نے اسے اپنی بچی بنا کر پالا ان کا ہم شکریہ نہیں ادا کر سکتے۔ مبارک علی ان کا نام تھا۔ ان کو [ممتاز بی بی پر] رحم آ گیا انہوں نے ان کو اپنی بیٹی بنا کر پالا۔‘
انہوں نے کہا کہ بہن سے ملاقات کی خواہش میں ہی انہوں نے فوراً اپنا پاسپورٹ بنوایا کیونکہ انہیں ملے بغیر قرار نہیں آ رہا تھا۔
75 سال بعد ایک دوسرے سے ملنے والی مسلمان بہن ممتاز بی بی اور ان کے سکھ بھائیوں کا انٹرویو کرنے والے صحافی نذر بابک نے اردو نیوز کو بتایا کہ دونوں بھائی لمبی مدت کا ویزہ حاصل کر کے اپنی بہن سے ملاقات کرنے ان کے گاؤں بھی جانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ممتاز بی بی اپنے بھائیوں کا ویزہ سپانسر کریں گی اور وہ دو یا تین ماہ میں دوبارہ پاکستان آئیں گے اور اپنی بہن سے ملنے شیخوپورہ جائیں گے۔‘
یہ ایسا پہلا واقعہ نہیں جب دہائیوں قبل بچھڑ جانے والوں کو کرتارپور میں اشکبار اور ایک دوسرے کے سینے سے لگتے ہوئے دیکھا گیا ہو۔
نذر بابک کے مطابق وہ حقیقت پر مبنی ایسی 18 کہانیوں سے واقف ہیں۔
رواں سال جنوری میں تقسیم ہند کے دوران بچھڑ جانے والے دو بھائیوں کی گردوارا کرتارپور میں ملاقات کی ایک اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔
دونوں بھائیوں میں سے بڑے بھائی حبیب انڈین سکھ ہیں وہ انڈین پنجاب کے علاقے پھلے والا سے اپنے چھوٹی بھائی صدیق جن کا تعلق فیصل آباد سے ہے سے ملنے پاکستان آئے تھے۔
پاکستان بھر میں موجود سکھوں کی عبادت گاہوں کے انتظامی امور ’پاکستان سکھ گردوارہ پربندھک کمیٹی‘ چلاتی ہے۔ اس کمیٹی کے رکن سردار ستونت سنگھ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایسا پہلا واقعہ نہیں بلکہ ایسی درجنوں کہانیوں سے میں خود واقف ہوں جہاں بچھڑے ہوئے خاندانوں کا ملاپ کرتارپور راہداری سے ممکن ہوا ہو۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسے بہت سارے لوگ ہیں جو پارٹیشن کے وقت ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ جو انڈیا گئے وہ سکھ ہوگئے اور جو پاکستان میں رہ گئے وہ مسلمان ہو گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ابھی ایسے بہت سارے خاندان ہوں گے جن کی ملاقاتیں ابھی ہونا باقی ہیں۔
’یہ کرتارپور راہداری پاکستانی حکومت کی جانب سے سکھ برادری کو تحفہ ہے۔‘
ستونت سنگھ کے مطابق پاکستانی حکومت اور دیگر حکام خصوصاً سوشل میڈیا کے ذریعے ان ملاقاتوں سے واقف ہیں اور وہ انڈیا میں موجود سکھ برادری کو سہولیات مہیا کرتے رہیں گے تاکہ بچھڑ جانے والوں کی ملاقاتیں ایسے ہی جاری رہیں۔