Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ کے حکم پر حکومت اور پی ٹی آئی میں مذاکرات نہ ہوسکے

سپریم کورٹ کی ہدایت پر پی ٹی آئی کے احتجاج کی تفصیلات طے کرنے کے لیے حکومت اور تحریک انصاف میں مذاکرات شروع نہ ہو سکے۔
سپریم کورٹ نے بدھ کے روز حکم دیا تھا کہ 3 گھنٹے میں پی ٹی آئی کے جلسے کے لیے ایچ نائن جلسہ گاہ میں سکیورٹی انتظامات مکمل کیے جائیں اور حکومتی کمیٹی اور پی ٹی آئی کی کمیٹی کا اجلاس چیف کمشنر آفس میں رات 10 بجے کیا جائے۔
رات 10 بجے تحریک انصاف کی کمیٹی کے رکن بابر اعوان اور  فیصل چوہدری مذاکرات کے لیے چیف کمشنر آفس اسلام آباد پہنچے تاہم حکومتی ٹیم کو پہنچنے میں تاخیر ہوگئی اس لیے وہ مذاکرات کیے بغیر وہاں سے واپس روانہ ہوگئے۔
کمشنر آفس میں  اے ڈی سی جی رانا وقاص نے بابر اعوان کو ڈی سی آفس کے اندر آنے کی کئی بار پیش کش کی تاہم بابر اعوان کا کہنا تھا کہ آپ مجھے اور میرے سٹاف کو ہراساں نہیں کرسکتے۔ اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دیا گیا وقت پورا ہوچکا ہے اب ہم جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی نے مذاکرات کے لیے چار رکنی ٹیم بنائی جس کے دو ارکان یہاں موجود ہیں۔‘
’دو ارکان اس وقت گمشدہ ہیں، ایک رکن کمیٹی عامر کیانی کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ ایک اور رکن علی نواز اعوان بھی غائب ہیں جنہیں پتا نہیں کہاں رکھا گیا ہے۔‘
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ دیر پہلے میرے گھر ٹیم بھجوائی گئی جس نے کہا کہ آئیں آپ کو اٹک لے چلتے ہیں لیڈرشپ سے مشورے کے لیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہمارے دو ارکان کو چھوڑا جاتا پھر مذاکرات کیے جاتے۔
اس موقع پر بات کرتے ہوئے فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم اب یہ معاملہ جمعرات کو سپریم کورٹ کے سامنے رکھیں گے۔
کچھ دیر بعد حکومتی کمیٹی کے ایک رکن مولانا اسعد محمود چیف کمشنر آفس پہنچ گئے اور تھوڑی دیر بعد ایاز صادق اور خالد مگسی بھی وہاں پہنچے۔
اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایاز صادق کا کہنا تھا کہ ہم اعلٰی عدلیہ کے احکامات کے مطابق یہاں آئے ہیں۔ہمیں کچھ دیر ہوگئی ہے کیونکہ راستے بند تھے
انہوں نے بتایا کہ ہم نے پی ٹی آئی کی کمیٹی سے رابطے کی کوشش کی ہے اور  وزیر قانون نے بھی کوشش کی ہے کہ ان کے وکیل بابر اعوان سے رابطہ کیا جائے
 مگر انہوں نے فون سننے سے انکار کردیا۔
ایاز صادق کا کہنا تھا کہ ’ہم یہاں بیٹھے رہیں گے اور بات کرکے ہی جائیں گے۔‘
 

شیئر: