Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن اور نیب اصلاحات کی منظوری کیا جلد انتخابات کا اشارہ؟

قومی اسمبلی کا ایجنڈا حکومت اور پی ٹی آئی میں کسی مفاہمت کی نفی کرتا ہے (فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)
قومی اسمبلی نے جمعرات کو نیب اور انتخابی اصلاحات کے قوانین منظور کرلیے۔ ایک ہی دن میں مطلوبہ قانون سازی کرنے سے یہ تاثر بھی پایا جا رہا ہے کہ شاید اس کا تعلق پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی جانب سے اچانک اپنا احتجاج ختم کرنے اور چھ دن کی ڈیڈ لائن دینے سے ہے۔
تاہم اردو نیوز کے پاس قومی اسمبلی کے ایجنڈے کی دستاویزات سے یہ تاثر غلط ہوجاتا ہے کہ حکومت نے جمعرات کو جلدی میں قانون سازی کی تاکہ اسمبلیوں کی جلد تحلیل کی طرف جایا جاسکے۔
قومی اسمبلی کی دستاویزات کے مطابق اتوار 22 مئی کو جو پیر کے اجلاس کا ایجنڈا جاری کیا گیا تھا اس میں بھی جمعرات کو منظور ہونے والا الیکشن ترمیمی بل 2022 شامل تھا۔
اس کے بعد 24 مئی اور 25 مئی کے سیشن کے لیے ایجنڈے میں بھی یہ بل شامل تھا۔ اسی طرح نیب ایکٹ میں ترامیم کا جو بل جمعرات کو پاس کیا گیا وہ بھی بدھ کی رات 11 بجے جاری کیے گئے ایجنڈے کا حصہ تھا۔
تاہم جمعرات کی صبح عمران خان نے حکومت کو چھ دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا اور اس کے بعد قومی اسمبلی میں قوانین بھی پاس ہوئے۔
اس کے بعد مقامی اور سوشل میڈیا پر متعدد تجزیہ کار دونوں واقعات کو ایک دوسرے سے جوڑ کر جلدی الیکشنز کی پیش گوئی کرتے نظر آئے۔
 ان کا خیال ہے کہ عمران خان اعلان کرکے آئے تھے کہ جب تک نئے الیکشنز کی تاریخ نہ لے لیں وہ ڈی چوک سے نہیں جائیں گے تاہم شاید رات گئے ان کے ساتھ حکومت اور مقتدر حلقوں کے درمیان رابطوں کے بعد جلد انتخابات کی کوئی یقین دہانی کروائی گئی ہو جس نے ان کا فیصلہ بدلا ہو۔
تاہم قومی اسمبلی کے گذشتہ کئی دن کے ایجنڈے سے اس تاثر کی کسی حد تک نفی ہوتی ہے کیونکہ مذکورہ قوانین پہلے سے معمول کے ایجنڈے کا حصہ تھے۔

سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے کہ کیا پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ کسی مفاہمت کے تحت دھرنا ختم کیا (فوٹو: اے ایف پی)

عام طور پر قومی اسمبلی کے اجلاس کا ایجنڈا ایک دن پہلے ہی طے کر کے شائع کردیا جاتا ہے۔ الیکشن اور نیب اصلاحات کے قوانین بھی اسی معمول کے ایجنڈے میں شامل کیے گئے۔
اس کے علاوہ وزیراعظم شہباز شریف نے  بھی جمعرات کو قومی اسمبلی سے خطاب میں اس تاثر کی نفی کی۔ سابق وزیراعظم عمران خان کو مذاکرات کی پیش کش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہماری طرف سے بات چیت کے دروازے کھلے ہیں لیکن یہ فیصلہ ایوان کرے گا کہ کب انتخابات کب کرانے ہیں۔
 وزیراعظم شہباز شریف نے سابق وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران نیازی کسی بھول میں نہ رہنا حکومت کی میعاد ایک سال 2 ماہ باقی ہیں۔‘
’اس جتھے کے سربراہ کو واضح کرتا ہوں کہ تمہاری ڈکٹیشن نہیں چلے گی، یہ فیصلہ ایوان کرے گا کہ کب الیکشن کرانا ہے، اگر تمہارا خیال ہے کہ بلیک میل یا ڈکٹیٹ کرلو گے تو اپنے گھر میں کرو، بات چیت کے دروازے کھلے ہیں، میں کمیٹی بناسکتا ہوں۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق اگر حکومت کو چند دن میں ہی جانا ہوتا تو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہ بڑھاتی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور ملک کا سیاسی مستقبل
جمعرات کی رات حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے فی لیٹر اضافے کے سخت فیصلے نے بھی اس تاثر کی نفی کی ہے کہ حکومت عمران خان کے مطالبے کے مطابق اسمبلیاں تحلیل کرنے کا سوچ رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر حکومت کو چند دن میں ہی جانا ہوتا تو یہ سخت فیصلہ جسے وزیراعظم شہباز شریف گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے ٹالے ہوئے تھے وہ خود کرنے اور سیاسی نقصان اٹھانے کے بجائے نگران حکومت کے ذمے چھوڑ جاتے۔
یاد رہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو تقریباً ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط کو وزیراعظم عمران خان کی جانب سے فروری میں دی گئی پیٹرولیم سبسڈی کے خاتمے سے مشروط کر رکھا تھا۔
اب توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان کی آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل مکمل ہوجائے گی اور ملک دیوالیہ ہونے سے بچ جائے گا، تاہم موجودہ حکومت کو پیٹرول کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ اگر حکومت نے الیکشن میں جلدی جانا ہوتا تو وہ اس طرح کا غیر مقبول فیصلہ نہ کرتی۔

شیئر: